اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستانی وزیر اعظم عمران خان آج سری لنکا کے سرکاری دورے پر جا رہے ہیں۔ بھارت نے ان کے طیارے کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دیدی ہے۔
بھارت نے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کو سری لنکا کے دورے کے لیے اپنی فضائی حدود کے استعمال کی اجازت دیدی ہے۔ وہ 23 فروی بروز منگل سری لنکا کے دو روزہ سرکاری دورے پر کولمبو پہنچ رہے ہیں۔ ان کے ساتھ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور تاجروں کا بھی ایک بڑا وفد بھی سری لنکا کا دورہ کر رہا ہے۔
بھارتی ذرائع ابلاغ میں اس حوالے سے جو خبریں شائع ہوئی ہیں ان کے مطابق اسلام آباد نے کچھ دن پہلے ہی بھارت کو اس بارے میں مطلع کر دیا تھا اور بھارت نے پیر 22 فروری کو اپنے فیصلے سے پاکستان کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ عمران خان کے طیارے کو بھارتی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت ہے۔
نئی دہلی میں تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بھارت کا یہ اقدام دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر ہونے کی سمت میں ایک اہم قدم ہے۔ سینیئر صحافی سنجے کپور نے ڈی ڈبلیو اردو سے خاص بات چيت میں کہا، “تعلقات بہتر ہونے کے کافی اشارے مل رہے ہیں، کووڈ پر جو سارک ممالک کی ویڈیو کانفرنس بلائی گئي تھی اس میں مودی نے عمران خان کو بھی دعوت دی تھی۔ تو جو اشارے مل رہے ہیں وہ کافی حوصلہ بخش ہیں۔”
ان کا مزید کہنا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ اور ڈیموکریٹس کی بھی یہی کوشش ہے کہ خطے میں پاکستان کو بھی اتنی ہی ترجیح ملے جتنی بھارت کو ملتی ہے۔ اس لحاظ سے لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں کشیدگی کم ہوگی اور حالات بہتر ہوں گے۔
2019ء میں بھارت نے جب ریاست جموں کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کیا تھا تو پاکستان نے اس کے رد عمل میں بھارتی صدر اور وزیر اعظم نریندر مودی کے جہازوں کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔
سمتبر 2019ء میں بھارتی صدر کو یورپ جانا تھا، جس کے لیے بھارت نے اجازت طلب کی تاہم پاکستان نے منع کر دیا تھا۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے جب وزیراعظم مودی کو امریکا جانا تھا، تب بھی پاکستان نے اپنی فضائی حدود کے استعمال کی اجازت نہیں دی تھی۔
اسی برس اکتوبر کے مہینے میں جب مودی کو سعودی عرب کے لیے روانہ ہونا تھا تب بھی پاکستان نے کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا حوالہ دیتے ہوئے اس کی اجازت نہیں دی تھی۔ بھارت نے ان دوروں کے لیے روایتی فضائی حدود استعمال کرنے کے بجائے دوسرا راستہ اختیار کیا تھا۔
بھارت نے پاکستان کے اس فیصلے کے خلاف عالمی شہری ہوا بازی کی تنظیم سے شکایت درج کرتے ہوئے کہا تھا کہ عام طور اہم شخصیات کے طیاروں کی پروازوں پر اس طرح کی پابندی نہیں عائد کی جاتی ہے تاہم پاکستان نے ایسا کر کے تمام روایات کی خلاف ورزی کی ہے۔
بھارتی ذرائع ابلاغ میں گزشتہ چند روز سے یہ خبر بھی سہہ سرخیوں میں ہے کہ اس دورے کے دوران پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کو سری لنکا کی پارلیمان سے خطاب کرنا تھا تاہم بھارت سے اپنے تعلقات کا خیال رکھتے ہوئے سری لنکا نے یہ پروگرام منسوخ کر دیا ہے۔
اس تعلق سے سری لنکا کے کئی میڈیا اداروں کے حوالے سے بھارتی میڈیا میں لکھا جا رہا ہے کہ چونکہ عمران خان اپنے مجوزہ خطاب میں ممکنہ طور پر کشمیر کا معاملہ اٹھائیں گے اور ظاہر ہے یہ بھارت کو قطعی پسند نہیں ہو گا۔ اس موقع پر سری لنکا بھارت سے اپنے تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتا اسی لیے اس نے اس پروگرام کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
حالانکہ سری لنکا کی حکومت کی جانب سے ایسا کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ کورونا کی وبا کی وجہ سے پارلیمان اجلاس نہ بلانے کا فیصلہ کیا گيا ہے۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان گزشتہ تقریبا دو برس سے تعلقات کشیدہ ہیں اور کسی بھی سطح پر کوئی بات چیت نہیں ہو رہی ہے۔ سن 2019 میں پلوامہ حملے کے بعد بھارتی فضائیہ نے پاکستان کے بالا کوٹ میں فضائی حملہ کیا تھا۔ اس کے جواب میں پاکستان نے بھی بھارت پر فضائی حملہ کیا اور جوابی کارروائی میں بھارت کا ایک جنگی طیارہ اور ایک ہیلی کاپٹر تباہ ہو گیا تھا۔
اس کے بعد بھارت نے کشمیر کے خصوصی اختیارات کو ختم کر کے کشمیر میں کرفیو جیسی بندشیں عائد کر دی تھیں تبھی سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات خراب ہیں۔ عمران خان اس دوران تمام عالمی فورم پر کشمیر کا مسئلہ اٹھاتے رہے ہیں۔