ایران (اصل میڈیا ڈیسک) ایران نے پارلیمان کے منظور کردہ ایک قانون کے تحت جوہری توانائی کے عالمی ادارے (آئی اے ای اے) کے ساتھ تعاون محدود کر دیا ہے اور اس کے معائنہ کاروں پر قدغنیں عاید کردی ہیں۔اس پر ایران کے ایک سرکاری اخبار نے خبردار کیا ہے کہ اس طرح کے ریڈیکل اقدامات سے ایران عالمی برادری میں تنہا ہوکررہ جائے گا۔
ایرانی پارلیمان کے ارکان نے حکومت کے آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کو آیندہ تین ماہ تک جوہری تنصیبات کی ضروری مانیٹرنگ کی اجازت دینے کے فیصلے پر احتجاج کیا تھا اور کہا تھا کہ حکومت کا یہ اقدام نئے قانون کے منافی ہے۔اس کے تحت آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں پر ایران کی جوہری تنصیبات کے اچانک معائنے کی سرگرمیوں پر قدغنیں لگا دی گئی ہیں۔
لیکن ایران کے سرکاری اخبار نے ایک تنقیدی تبصرے میں لکھا ہے کہ نئے قانون کے تحت اچانک معائنے پر پابندی کے جواب میں سخت ردعمل ہوسکتا ہے۔
صدر حسن روحانی کے قریب سمجھے جانے والے اخبار نے اپنے تبصرے میں لکھا ہے کہ جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ ایران کو ضرور بالضرور سخت اقدامات کرنے چاہییں تو ان کے نزدیک اس بات کی کیاضمانت ہے کہ ایران ایک مرتبہ پھر ماضی کی طرح تنہا نہیں رہ جائے گا اوراس کے خلاف ایک اتفاق رائے بنانے میں مدد ملے گی۔‘‘
لیکن ایران کے سخت گیرطبقے کے ترجمان اخبار کیہان نے آئی اے ای اے کے ساتھ طے شدہ ڈیل کی حمایت کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کی رائے کے بغیر تیار نہیں کی جاسکتی تھی۔اس ڈیل کے تحت آئی اے ای اے کے معائنہ کار ایران کی حساس جوہری تنصیبات کا اچانک معائنہ نہیں کرسکیں گے۔
ایران نے یہ اقدام یورپی یونین اور امریکا کے صدر جو بائیڈن پر دباؤ ڈالنے کی غرض سے کیا ہے تاکہ وہ اس کے خلاف عاید کردہ سخت پابندیوں کو ختم کردیں۔ایران کے سرکاری ٹی وی نے جوہری تنصیبات کے معائنے پر پابندی کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کے ساتھ تعاون کم کردیا گیا ہے۔
ایران کی جوہری توانائی تنظیم نے اپنی جوہری تنصیبات کی فوٹیج کو تین ماہ تک اپنے پاس رکھنے کا وعدہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے بعد اس فوٹیج کو آئی اے ای اے کے حوالے کردیا جائے گا لیکن یہ اسی صورت میں ہوگا جب ایران کو پابندیوں میں ریلیف کی ضمانت دی جائے گی۔
ایران نے آئی اے ای اے کے ساتھ طے شدہ ’’اضافی پروٹوکول‘‘ پرعمل درآمد روکنے کا بھی اعلان کیا تھا۔ عالمی ایجنسی اور تہران کے درمیان یہ خفیہ سمجھوتا تاریخی جوہری معاہدے کے حصے کے طور پر طے پایا تھا۔اس کے تحت اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کو ایران کی جوہری تنصیبات کے معائنے اور اس کے جوہری پروگرام کی نگرانی کے زیادہ اختیارات حاصل ہوگئے تھے۔
واضح رہے کہ امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مئی 2018ء میں ایران سے طے شدہ جوہری سمجھوتے سے دستبردار ہونے کا اعلان کردیا تھا اور اس کے خلاف سخت اقتصادی پابندیاں عاید کردی تھیں۔اس کے ردعمل میں ایران نے جوہری سمجھوتے کی شرائط کی مرحلہ وار پاسداری نہ کرنے کااعلان کیا تھا اور اس نے یورینیم کو 20 فی صد تک افزودہ کرنا شروع کردیا تھا۔
ایران کے رہبراعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے سوموار کو کہا تھا کہ ہم اپنے جوہری پروگرام کے معاملے میں امریکا کے دباؤ کے آگے نہیں جھکیں گے۔انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ایران یورینیم کو 60 فی صد تک مصفا کرسکتا ہے لیکن انھوں نے اس مؤقف کا اعادہ کیا تھا کہ ایران جوہری ہتھیار نہیں بنانا چاہتا ہے۔
تاہم امریکا کا کہنا ہے کہ علی خامنہ ای کا یہ بیان دھمکی کے مترادف ہے لیکن اس کے باوجود امریکا ایران کے ساتھ جوہری سمجھوتے میں واپسی کے لیے مذاکرات کو تیار ہے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن نے ایک روز قبل کہا تھا کہ ان کا ملک ایران کے ساتھ جوہری سمجھوتے کو مضبوط بنانا چاہتا ہے اوراس میں توسیع بھی چاہتا ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ’’امریکا بدستور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پُرعزم ہے کہ ایران کبھی جوہری ہتھیار حاصل نہ کرے مگراس مقصد کو سفارت کاری ہی کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے۔‘‘
امریکی صدر جو بائیڈن یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر ایران 2015ء میں طے شدہ جوہری سمجھوتے کی سخت پاسداری کرے تو ان کی انتظامیہ بھی ایسا کرنے کو تیار ہوگی لیکن ایران اس سے پہلے امریکا سے تمام پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ کررہا ہے اور اب معاملہ اس نکتے پر تعطل کا شکار ہے کہ پہل کون کرے۔
ویانا میں قائم آئی اے ای اے نے اتوار کو ایران کے ساتھ ایک ڈیل طے پانے کی اطلاع دی تھی۔اس کے تحت عالمی ادارے کے معائنہ کار آیندہ تین ماہ تک ایران کی جوہری تنصیبات کا ضروری معائنہ کرسکیں گے۔
آئی اے ای اے کے سربراہ رافاعل گراسی نے ایران کے دورے سے لوٹنے کے بعد ویانا کے ہوائی اڈے پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس امر کی بھی تصدیق کی تھی کہ ایران منگل سے ایجنسی کے ساتھ تعاون میں کمی کرسکتا ہے۔