دہلی (اصل میڈیا ڈیسک) دہلی فسادات کے ایک برس گزرجانے پر سول سوسائٹی کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اصل ملزم اب بھی کیفر کردار تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔
سابق رکن پارلیمان برندا کرات نے دہلی فسادات کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ یہ فسادات بھارت کے تاریخ پر بدنما داغ ہیں کیونکہ یہ دارالحکومت میں ہوئے جہاں پولیس اور قانون وانتظام کی ذمہ داری مرکزی حکومت کے ہاتھوں میں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فسادات حکمراں بی جے پی کے لیڈروں کی اشتعال انگیز تقریروں سے بھڑکے تھے لیکن ان لوگوں کے خلاف اب تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔
برندا کرات کا کہنا تھا کہ پولیس قصورواروں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے متاثرین کو ڈرا دھمکا رہی ہے۔ اس نے متاثرین کے بیانات درج کرنے سے انکار کردیے اور اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسایا جا رہا ہے۔ انہوں نے اس پورے واقعے کی عدالت کی نگرانی میں آزادانہ انکوائری کرانے کا مطالبہ کیا۔
دہلی فسادات کی رپورٹ کے اجراء کے موقع پر موجود متعدد متاثرین نے دل دہلادینے والے واقعات بیان کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بھیانک واقعات وہ زندگی بھر بھول نہیں سکتے اور وہ اب بھی خوف و ہراس میں زندگی گزار رہے ہیں۔
ترپن سالہ محمد وکیل نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فسادات تو 23 فروری سے ہی شروع ہو گئے تھے لیکن شیووہار نامی جس علاقے میں وہ رہتے ہیں وہاں فسادیوں نے 25 فروری کی شام سے ہنگامہ شروع کیا تو اپنی جان بچانے کے لیے خود کو کنبے کے لوگوں کے ساتھ ایک طرح سے گھر میں قید کرلیا۔
محمد وکیل بتاتے ہیں، ”شام کے وقت بجلی کاٹ دی گئی، ہر طرف اندھیرا چھا گیا تھا اور پتھراؤ شروع ہو گیا تھا۔ میں نے کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھنے کی کوشش کہ کیا صورت حال ہے تو میرے چہرے پر تیزاب کی بوتل آ کر لگی۔ اس وقت تو مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا لیکن جب میری بیٹی نے موبائل کی روشنی میں دیکھا تو میرا چہرہ خون سے لت پت تھا۔ میرا چہرہ جل گیا تھا اور میری دونوں آنکھوں کی بینائی چلی گئی تھی۔”
محمد وکیل نے کہا کہ انہیں تقریباً تین لاکھ روپے بطور معاوضہ ملا ہے حالانکہ دہلی حکومت نے پانچ لاکھ روپے معاوضہ دینے کا اعلان کیا تھا۔
بھگوتی وہار میں رہنے والی تیس سالہ ملکہ کے شوہر مشرف کو فسادیوں نے 25 فروری کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ ملکہ نے روتے ہوئے بتایا، ” 25 فروری کی شام کو فسادی ان کی گلی میں داخل ہو گئے۔ انہوں نے مسلمانوں کو تلاش شروع کردی۔ میں نے اپنے گھر کی تمام بتیاں بجھادی تھیں اور اپنے شوہر کو کپڑوں کے پیچھے چھپا دیا تھا لیکن ہجوم نے انہیں تلاش کرلیا اور بڑی بے دردی سے مارتے ہوئے باہر لے گئے۔ دو روز بعد ان کی لاش جی ٹی بی ہسپتال میں ملی۔ وہ کیچڑ میں پوری طرح لت پت تھی۔” ملکہ بتاتی ہیں کہ انہیں آج تک نہ تو انصاف ملا اور نہ ہی پورا سرکاری معاوضہ مل سکا ہے۔
شیو وہار میں جمال الدین بیکری کے مالک نظام الدین منصوری نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں اور ان کے بھائی جمال الدین کو فسادیوں نے اس وقت گھیر لیا جب وہ اپنے گھر لوٹ رہے تھے۔ فسادیوں نے ان سے شناختی کارڈ دکھانے کو کہا اس کے بعد لاٹھی ڈنڈوں اور لوہے کے سریوں سے پیٹنا شروع کردیا اور مردہ سمجھ کر چلے گئے۔
نظام الدین نے بتایا کہ جمال الدین کی موقع پر ہی موت ہو گئی جب کہ ان کے سر پر پندرہ ٹانکے لگے اور ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔ وہ علاج کے بعد بھی اب بھی ٹھیک سے کام نہیں کر پاتے۔
نئی دہلی کے ایک مقام عیدگاہ میں انتظامیہ نے ایک بڑا عارضی کیمپ قائم کر رکھا ہے۔ اِسی کیمپ میں کھلے آسمان تلے ایک مسجد بھی بنائی گئی ہے۔ ایسا اِمکان ہے کہ بے گھر ہونے والے افراد رواں برس عید الفطر کی نماز بھی یہیں ادا کریں گے۔ اِس کیمپ میں قریب ایک ہزار لوگ عارضی پناہ گاہوں میں ہیں۔
جمال الدین کی بیوہ نازش بیگم نے فسادات کے لیے مکمل طور پر مرکزی حکومت کو ذمے دار ٹھہراتے ہوئے کہا، ”اگر حکومت چاہتی تو فسادات چوبیس گھنٹے میں روکے جا سکتے تھے لیکن اس نے انتقام لینے کے لیے یہ سب ہونے دیا۔”
نازش بیگم کہتی ہیں ”ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے شوہر پر حملہ کن لوگوں نے کیا لیکن ہم کچھ بول نہیں سکتے، اگر کچھ بولیں گے تو شاید ہمیں بھی قتل کردیا جائے گا۔ پھرہمارے چار چھوٹے بچوں کا کیا ہو گا۔”
بھارت کا قومی دارالحکومت گزشتہ برس 23 فروری سے پانچ روز تک فسادات کی آگ میں جلتا رہا تھا، جس میں کم از کم 54 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ ہلاک ہونے والوں میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ کروڑوں روپے کی جائیدادیں جلا کر خاکسترکردی گئیں اور درجنوں عبادت گاہوں کو نقصان پہنچایا گیا۔