پاکستان فلم انڈسٹری کی لیجنڈ اداکارہ صبیحہ خانم کی بے ساختہ اور دل موہ لینے والی اداکاری کی بدولت انہیں ہمیشہ یادرکھاجائے گا گذشتہ سال وفات پانے والی اداکارہ نے دو دہائیوں تک پاکستانی فلم انڈسٹری پر راج کیا شادی سے پہلے اور بعدان کا کوئی سکینڈل نہیں بنا انہیں ہمیشہ عزت و احترام اور قدرکی نگاہ سے دیکھا گیا صبیحہ خاتم کو پاکستان فلم انڈسٹری کے کلاسیکل دور کی آخری ہیروئن بھی کہاجاسکتاہے پہلی پاکستانی گولڈن جوبلی فلم ”سسی” بھی صبیحہ خانم کے حصے میں آئی، ان کی عمر 85 برس تھی، صبیحہ خانم کو بہترین اداکاری پر تمغہ حسن کارکردگی بھی دیا گیا۔ پاکستانی فلم انڈسٹری کی پہلی سپر سٹار صبیحہ خانم کا اصل نام مختار بیگم تھا۔ وہ 1935 میں گجرات میں پیدا ہوئیں، ان کے والدین محمد علی ماہیا اور بالو بیگم تھیٹر میں کام کرتے تھے۔
صبیحہ خانم نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز 1950 میں فلم ‘بیلی’ سے کیا۔ اس وقت وہ اپنا نام صبیحہ ایم اے لکھاکرتی تھیں عام لوگ بہت حیران تھے کہ اتنی پڑھی لکھی خاتون پاکستان فلم انڈسٹری میں کیسے آگئی پھر لوگوںکو معلوم ہوا کہ وہ اپنے والد محمد علی ماہیا کی مناسبت سے ایم اے لکھتی ہیں بہرحال 1954 میں فلم گمنام سے صبیحہ خانم کی شہرت کو چار چاند لگ گئے۔ پھر 1956 میں انہوں نے فلم ‘د لا بھٹی’ میں اداکار سدھیر کے ساتھ نوراں کا کردار ادا کیا جو شائقین فلم کے دلوں پر نقش ہو گیا۔ اس کے بعد متعدد کامیاب فلموں نے انہیں پاکستان کی کامیاب ترین ہیروئن بنا دیا۔ ان میں فلم ‘وعدہ’، ‘حاتم’ اور ‘شیخ چلی’ شامل تھیں۔ ان پر اپنے وقت کے بہت سے مشہور اور لازوال گیت فلمائے گئے۔
فلم عشق لیلیٰ نے انپے وقت میں کامیابی کا نیا ریکارڈقائم کیا تھا اداکارہ صبیحہ خانم نے سب سے زیادہ فلمیں سنتوش کمار کے ساتھ کیں اور انہی سے ان کی شادی بھی ہوئی۔ آپ ایک عرصہ سے امریکا میں مقیم تھیں ان کے انتقال سے پاکستان کی فلمی تاریخ کا سنہرا باب بند ہو گیا۔ وہ اپنی بڑی بیٹی کے ساتھ ورجینیا میں مقیم تھیں۔ ان کی چھوٹی بیٹی اور بیٹا بھی امریکہ ہی رہتے ہیں۔
انہوں نے فنی زندگی کا آغاز لاہور میں ایک ڈرامے “بت شکن” میں کام کرکے کیا۔ وہ پاکستان کی پہلی سلور جوبلی فلم” دو آنسو” “سسی” کی کاسٹ کا حصہ تھیں۔ انہیں فلم ” اک گناہ اور سہی” پر تاشقند فلم فیسٹیول میں بہترین اداکارہ کا ایوارڈ دیا گیا اور 1987ء میں صدر پاکستان نے پرائڈ آف پرفارمنس سے نوازا۔ ان کے شوہر سنتوش کمار کا اصل نام سید موسیٰ رضا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد صبیحہ خانم اور سنتوش کمار کی جوڑی کو فلمی دنیا میں کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا۔
صبیحہ خانم نے50 19ء اور1960 ء کی دہائی میں پاکستانی سنیما پرراج کیا۔ 1980 اور90 19ء کی دہائی میں انہوں نے پاکستان ٹیلی ویڑن کے مشہور ڈراموں میں بھی اداکاری کی۔ صبیحہ خانم نے ‘تہذیب’، ‘انوکھا’، ‘کنیز’، ‘مکھڑا’، ‘شکوہ’، ‘دیور بھابی’، ‘ایک گناہ’ اور ‘سنگدل’ جیسی فلموں میں شاندار اداکاری کی۔ فلموں میں لازوال اداکاری کے سبب انہیں پاکستان کے سب سے بڑے فلم ایوارڈ نگار ایوارڈ اور تمغہ حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔ صبیحہ خانم کافی عرصے سے گردوں کے عارضے، بلڈ پریشر اور شوگر سمیت کئی بیماریوں میں مبتلا تھیں۔
لیجنڈری اداکارہ کی پاکستان فلم انڈسٹری کے لیے خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ بلاشبہ صبیحہ خانم نے اپنی اداکاری کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ صبیحہ خانم کے پرستار آج بھی انکی یادگار فلمیں فراموش نہیں کرسکے، فن کے لئے ان کی خدمات کو تادیر یاد رکھا جائے گا۔ صبیحہ خانم پاکستان کی فلم انڈسٹری کا درخشاں ستارہ اور روشن باب تھیں، دنیائے فن کیلئے صبیحہ خانم کی خدمات کو کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔