برلن (اصل میڈیا ڈیسک) جرمن دارالحکومت برلن اور اس کے مضافاتی علاقے برانڈنبرگ میں پولیس نے انتہا پسند مسلمانوں کی ایک انجمن کے خلاف ایک بڑی چھاپہ مار کارروائی کی اور اس گروپ پر فوری طور سے پابندی عائد کر دی گئی۔
اس شدت پسند گروہ کا نام ‘جماعة برلن‘ بتایا گیا ہے۔ اس گروپ کے اراکین پر الزام ہے کہ یہ جرمن آئینی احکامات کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ مقامی اخبار ٹاگس اشپیگل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ گروہ شدت پسند تنظیم داعش کا حامی ہے اور یہودیوں کے قتل کا مطالبہ بھی کرتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس گروہ کے ممبران کی آپس میں واقفیت ایک ایسی مسجد میں ہوئی جو اب بند ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ برلن کے برائٹ شائڈٹ پلاٹز پر سن 2016 میں دہشت گردانہ حملہ کرنے والے انیس عامری کی بھی اسی مسجد سے وابستگی کی اطلاعات ہیں۔
برلن کے داخلہ امور کے سینیٹر اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی کے سیاستدان آندریاز گائزل نے ایک بیان میں کہا کہ شدت پسند گروہ ‘جماعة برلن‘ اور ‘توحید برلن‘ دونوں انتہائی بنیاد پرست جہادی سلفییوں کی ایسوسی ایشن ہے اور یہ کچھ عرصہ پہلے ہی وجود میں آئی ہے۔ اس کا نظریہ بین الاقوامی نظریہ تفہیم سے متصادم ہے اور اس کے اراکین جرمن آئین کے قواعد کے خلاف کام کرتے ہیں۔
برلن اور برنڈنبرگ میں متعدد مقامات پر چھاپے۔
ان تنظیموں کی پابندی کی آئینی حیثیت ہے۔ داخلہ ریاستی انتظامیہ کے مطابق یہ پابندی آئین کے آرٹیکل 9 کے تحت لگائی گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق انتہا پسند مسلمانوں کی تنظیموں کے ٹھکانوں پر چھاپے مار کر کُل 26 ایسی اشیا برآمد کی گئی ہیں جن کی مدد سے ان تنظیموں کے اثاثوں اور ان کی ممنوعہ سرگرمیوں کی کھوج لگائی جا سکے گی۔ ان اثاثوں کو ضبط کر لیا گیا ہے۔
جمعرات کی صبح سویرے کی جانے والی اس چھاپہ مار کارروائی میں 850 پولیس اہلکار شامل تھے۔ برلن اور برانڈنبرگ کی پولیس کے ساتھ ساتھ وفاقی پولیس کو بھی اس آپریشن میں شامل کیا گیا تھا۔ برلن کے داخلہ امور کے سینیٹر آندریاز گائزل نے ایک بیان میں کہا، ”ان تنظیموں پر عائد کی جانے والی پابندی تمام دیگر انتہا پسند عناصر کے لیے ایک واضح اشارہ ہے کہ ہم کسی بھی صورت میں انتہا پسندی کو برداشت نہیں کریں گے۔ دہشت گرد تنظیم ‘اسلامک اسٹیٹ‘ کے پرچار اور دہشت گردی کے پروپگینڈا کی کوئی گنجائش نہیں دی جائے گی۔‘‘ ساتھ ہی جرمن سیاستدان نے اس امر پر زور دیا کہ مسلم انتہا پسندی کے خطرات ہنوز کافی زیادہ پائے جاتے ہیں۔ اس طرح کی تنظیموں پر پابندی عائد کرنا انتہا پسندانہ تشدد کے خلاف جنگ کا ایک بنیادی ستون ہے۔
اسینیٹ انتظامیہ کی جانب سے ایک اعلامیہ جاری کیا گیا ہے جس میں مذکورہ تنظیموں کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے دفاع میں یہ دلیل پیش کی گئی ہے کہ ‘جماعة برلن‘ اور ‘توحید برلن‘ اپنی دیگر انتہا پسندانہ خصوصیات کے علاوہ جہاد اور شہریوں پر دہشت گردانہ حملے کی وکالت کرتی ہیں۔ اس سے قتل اور دہشت گردی کو ترغیب دی جاتی ہے اور اس طرح ‘اسلامک اسٹیٹ‘ کے نظریات کی تشہیر ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ یہ عناصر جرمنی کے بنیادی قوانین اور جمہوری قوانین کی حکمرانی کو ماننے سے انکار کرتی ہیں۔