اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے ہوں گے یا خفیہ بیلٹ سے، پوری قوم کی نظریں سپریم کورٹ کی رائے پر لگ گئیں۔
صدر مملکت نے سینیٹ انتخابات پر خفیہ رائے شماری کے آرٹیکل 226 کا اطلاق ہونے یا نہ ہونے کے سوال پر مبنی ریفرنس 23 دسمبر 2020 کو سپریم کورٹ میں دائر کیا۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے 4 جنوری کو کیس کی پہلی سماعت کی اور صدارتی ریفرنس پر کل 20 سماعتیں ہوئیں، عدالت نے صدارتی ریفرنس پر اپنی رائے 25 جنوری کو محفوظ کی۔
پنجاب، خیبر پختونخوا، بلوچستان کی صوبائی حکومتوں، اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ نے اوپن بیلٹ کی حمایت کی جبکہ سندھ حکومت نے مخالفت کی۔
اسی دوران حکومت نے 6 فروری کو وفاقی کابینہ سے الیکشن ترمیمی آرڈیننس 2021 کی منظوری لے لی۔
عدالت نے پیپلز پارٹی، پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز، مسلم لیگ ن، جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی سمیت وکلاء تنظیموں کا مؤقف بھی سنا۔
چیف الیکشن کمشنر کا ایک ہی مؤقف رہا کہ اگر سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کروانے ہیں تو آئین میں ترمیم کروا لی جائے۔
چیف جسٹس نے 24 جنوری کی سماعت میں ریمارکس دیے کہ ووٹنگ کے لیے کیا طریقہ کار اپنانا ہے، کتنی رازداری ہونی چا ہیے، یہ فیصلہ پارلیمنٹ نے کرنا ہے، اگر آئین کہتا ہے کہ خفیہ ووٹنگ ہو گی تو بات ختم، سپریم کورٹ پارلیمان کا متبادل نہیں، ریاست کے ہر ادارے نے اپنا کام حدود میں رہ کر کرنا ہے۔
اٹارنی جنرل نے آخری سماعت پر جواب الجواب میں کہا کہ عدالت جو بھی رائے دے گی حکومت اس پر عمل کرنے کی پابند ہو گی، ریفرنس پر نظرثانی درخواستیں نہیں آ سکتیں۔