فرینکفرٹ (اصل میڈیا ڈیسک) جرمنی میں چار ماہ کے سخت لاک ڈاؤن کے بعد حکومت پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ پابندیوں میں نرمی پر غور کرے۔ تاہم ملک میں کڑی پابندیوں کے باوجود کورونا کے کیسز میں ایک مرتبہ پھر اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
جرمنی میں کئی ماہ کی سخت سردی کے بعد فروری کے اواخر میں بہار کی آمد کے ساتھ موسم خوشگوار ہو رہا ہے۔ زیادہ تر شہری لگ بھگ چار ماہ کے کڑے لاک ڈاؤن سے نکلنے کے لیے بے چین ہیں۔ دوکانیں، کیفے اور ریستوران اب بھی بند ہیں۔ لیکن کھانے پینے کے لیے ‘ٹیک اووے فوڈ‘ کی اجازت ہے، جہاں اب لوگوں کی لمبی قطاریں دیکھی جا رہی ہیں۔
ماہرین کے مطابق جرمنی میں شہریوں کی اکثریت نے وبا پر قابو کے لیے میل جول سے متعلق پابندیوں پر عمل کیا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے منفی نفسیاتی، سماجی اور معاشی اثرات سامنے آرہے ہیں اور لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ایسے کب تک چلے گا؟
فرینکفرٹ شہر کی گوئٹے یونیورسٹی کے پروفیسر رولف وان ڈِک کہتے ہیں اعدادوشمار یہی بتاتے ہیں کہ لوگوں کی اکثریت حفاظتی پابندیوں کی پاسداری کر رہی ہے۔ تاہم ان کے مطابق، لاک ڈاؤن جتنا لمبا چلے گا، اس کی مخالفت میں اضافہ ہوتا جائے گا۔
جرمنی کے سرکاری براڈکاسٹر اے آر ڈی کے ایک حالیہ سروے کے مطابق لوگوں کی خاصی تعداد زندگیاں بچانے کے لیے اب بھی پابندیوں کو ضروری سمجھتی ہے۔ تاہم 27 فیصد جرمن شہریوں کا خیال ہے کہ موجودہ پابندیاں کچھ زیادہ ہی سخت اور غیرضروری ہیں۔
پچھلے چند ہفتوں کے دوران بظاہر اس تاثر نے مزید زور پکڑا ہے اور ایسے لوگوں کی تعداد میں کمی آرہی ہے جو سمجھتے ہیں کہ ملک میں سماجی پابندیاں کم کرنے کی بجائے انہیں مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے۔
ماہرین کے مطابق اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ زیادہ تر گھر میں بیٹھ بیٹھ کر تھکتے جا رہے ہیں۔ ان میں لاک ڈاؤن سے متعلق اکتاہٹ بڑھ رہی ہے۔ حکومت سمیت کسی کو یہ معلوم نہیں کہ وبا سے متعلق یہ مشکل حالات مزید کتنا عرصہ چلیں گے۔ بعض لوگوں کو تو یہ محسوس ہورہا ہے جیسے وہ ہمیشہ کے لیے اس میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔
حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ تمام تر کڑی پابندیوں کے باوجود جرمنی میں کورونا کے کیسز میں نمایاں کمی دیکھنے میں نہیں آئی بلکہ متاثرین کی تعداد میں پھر سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ویکسین کی دستیابی میں مسائل کی وجہ سے جرمنی میں حکام اُس تیزی سے ٹیکے مہیا نہیں کر پائے جتنا امریکا اور برطانیہ میں کی گئی، وہاں صورتحال کہیں زیادہ گمبھیر رہی ہے۔
بعض ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ ایسے میں جرمنی کورونا وبا کی تیسری لہر کی جانب بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ جرمنی کی وفاقی اور سولہ ریاستی حکومتوں کے منتخب نمائندوں پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ پابندیوں میں نرمی پر غور کریں۔ حکام کو یہ بھی خدشہ ہے کہ سختیاں جاری رہی تو لوگوں کی مخالفت آپے سے باہر بھی جا سکتی ہے، جیسا کہ ہالینڈ میں دیکھا گیا جہاں جنوری میں لوگ پابندیوں کے خلاف ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ پر اتر آئے۔
جرمنی میں موجودہ پابندیوں کا نفاذ سات مارچ تک ہے۔ آنے والے ہفتے میں حکام کو تین مارچ تک فیصلہ کرنا ہے کہ ان پابندیوں میں توسیع کی جائے یا پھر نرمی برتی جائے۔ یہ فیصلہ آسان نہ ہوگا اور دونوں صورتوں کے اپنے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق قوی امکان ہے کہ حکومت ایسا نظام متعارف کرائے کہ جن علاقوں میں کیسز کم ہیں وہاں نرمی لائی جائے اور جہاں کیسز زیادہ ہیں وہاں سختی برقرارکھی جائے۔ اس طرح کی پالیسی کئی دیگر ممالک میں پہلے ہی آزمائی جاچکی ہے۔
خیال ہے کہ ایسے کرنے سے حکومت پر دباؤ میں کمی آئے گی اور ساتھ ہی حکام وبا پر قابو پانے کے لیے وائرس کے “ہاٹ اسپاٹس” پر توجہ مرکوز کر پائیں گے۔