اللہ تعالی نے انسان کو زمین پر اتار نے سے قبل اس کا تمام سامان زیست اس کرہ ارض پر مہیا کر دیا تھا۔ جانور بھی اول روز سے انسان کی بنیادی ضرورت رہے ہیں۔جب تک جانور انسان کے ساتھ رہتے رہے ،انسانی زندگی فطرت کے قریب ترین رہی۔ سیکولر فکری ارتقاء معکوس نے مشینوں پر انحصار سکھایا تو انسان نے جانوروں کو اپنی زندگی سے نکال باہر کیا اور فطرت سے بعد بڑھتا چلا گیا۔اولین انسان جس سادگی کے ساتھ زندگی گزارتا تھا وہ انسان العصر کے لیے ایک حسین خواب محض کا درجہ ہی رکھتا ہے۔
فی الحقیقت آج بھی جانوروں اورپرندوں کی دو جوڑیاںاورایک قطعہ زمین جتنااثاثہ انسان کا عرصہ حیات گزارنے کے لیے بہت کافی ہیں۔لیکن انسان نے اپنی تعیشات کے لیے بہت سے ناروابوجھ جانوروں کی مضبوط پشت سے اتارکراپنے نازک کندھوںپرلاد لیے ہیں اورالھکم التکاثرکی عملی تصویر بن بیٹھاہے۔جانوروں کی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالی نے اپنی آخری کتاب کی ایک سورة ”سورة الانعام”جانوروں کے ہی نام پر رکھی ہے۔اس کے علاوہ ہاتھی جیسے جانورکے نام کی ”سورة فیل” ، گائے کے نام کی ”سورہ بقرہ”،چیونٹی کے نام کی ”سورة نمل”،مکڑی کے نام کی ”سورہ العنکبوت”،شہدکی مکھے کے نام کی ”سورہ نحل”اورگھوڑوں کے نام کی ”سورہ العادیات”بھی قرآن مجیدمیں موجود ہے۔اس کے علاوہ بھی قرآن مجیدکی دوسوآیات میں کم و بیش پنتیس(٣٥) جانوروں،چوپاؤں،حشرات الارض اورپرندوں کا ذکر ہے۔
اللہ تعالی نے جانوروں کی تخلیق اور ان کے طرزحیات و عادات و اطوارکو بطور دلائل توحیدکے بھی بیان فرمایاہے۔جیسے ایک موقع پر فرمایا” اَفَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلَی الْاِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْ(٨٨:١٧)”ترجمہ”توکیایہ لوگ اونٹوں کونہیں دیکھتے کہ انہیں کیسے پیداکیاگیا؟”۔اسی طرح اللہ تعالی نے شہدکی مکھی کے بارے میں بتاکرکہاکہ اس میں فکرکرنے والوں کے لیے اللہ تعالی تک پہنچنے کی نشانیاں ہیں” وَ اَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعْرِشُوْنَ (١٦:٦٨) ثُمَّ کُلِیْ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ فَاسْلُکِیْ سُبُلَ رَبِّکِ ذُلُلًا یَخْرُجُ مِنْ بُطُوْنِہَا شَرَاب مُّخْتِلف اَلْوَانُہ’ فِیْہِ شِفَآئ لِلنَّاسِ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَةً لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ(١٦:٦٩) ”ترجمہ:”اورآپۖکے رب نے شہدکی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی پہاڑوں میں اوردرختوں میں اورٹٹیوں میں چڑھائی ہوئی بیلوں میں اپنے چھتے بنائے اورہرطرح کے پھلوں کارس چوسے اوراپنے رب کی ہموار کی ہوئی راہوں پرچلتی رہے ۔اس مکھی کے اندرسے رنگ برنگ رنگ کاایک شربت نکلتاہے جس میں شفاہے لوگوں کے لیے،یقیناََاس میں بھی ایک نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو غوروفکرکرتے ہیں”۔اللہ تعالی نے چوپاؤں کے پیٹ سے نکلنے والے دودھ کو بھی توحیدکی نشانی اور معرفت الہی کے لیے بطورمثال کے پیش فرمایاکہ ” وَ اِنَّ لَکُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةً نُسْقِیْکُمْ مِمَّا فِیْ بُطُوْنِہ مِنْ بَیْنِ فَرْثٍ وَّ دَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَآئِغًالِلشّٰرِبِیْنَ (١٦:٦٦) ”ترجمہ:”اورتمہارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق موجودہے ان کے پیٹ سے گوبھراورخون کے درمیان ہم ایک چیزتمہیں پلاتے ہیں،یعنی خالص دودھ جوپینے والوں کے لیے نہایت خوشگوارہے”۔پرندوں کے بارے میں قرآن مجید نے کیاخوبصورت بات کہی کہ” اَوَ لَمْ یَرَوْا اِلَی الطَّیْرِ فَوْقَہُمْ صٰفّٰتٍ وَّ یَقْبِضْنَ مَا یُمْسِکُہُنَّ اِلَّا الرَّحْمٰنُ اِنَّہ’ بِکُلِّ شَیْئٍ بَصِیْر(٦٧:١٩)”ترجمہ”کیایہ لوگ اپنے اوپر اڑنے والے پرندوں کوپرپھیلائے اورسکیڑتے نہیں دیکھتے ،رحمان کے سواکوئی نہیں جوانہیں تھامے ہوئے ہو،وہی (اللہ تعالی)ہرچیزکانگہبان ہے”۔اسی طرح ایک اورجگہ فرمایا” اَلَمْ یَرَوْا اِلَی الطَّیْرِ مُسَخَّرٰتٍ فِیْ جَوِّ السَّمَآئِ مَا یُمْسِکُہُنَّ اِلَّا اللّٰہُ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ(١٦:٧٩)”ترجمہ:”کیاان لوگوں نے پرندوں کونہیں دیکھاکہ فضائے آسمانی میں کس طرح مسخرہیں؟؟اللہ تعالی کے سوا کس نے ان کوتھام رکھاہے؟؟اس میں بہت ساری نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جوایمان لاتے ہیں”۔
جنگل میں رہنے والے جانور فطری طورپر انسان سے خائف رہتے ہیں۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور اللہ تعالی نے غیرانسان مخلوق میں انسان کی عظمت بٹھائی ہے۔لیکن اس کے باوجود انسان جب جنگل میں جاتاہے تواس پرجنگلی جانوروں کاخوف سوارہوتاہے۔اس کی وجہ شیخ سعدی نے ایک حکایت میں بیان فرمائی ہے۔آپ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک بزرگ کودیکھاجو چیتے جیسے ایک جنگلی اور خونخواردرندے پر سوارتھے اور وہ سفاک جانوراس بزرگ کے اشاروں پر متحرک تھا۔وہ جس طرف اشارہ کرتے وہ اسی طرف کو منہ کرتااور چلتارہتا۔شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ میں نے ڈرتے ڈرتے اس بزرگ سے ہاتھ ملایااور گھبراتے ہوئے پوچھاکہ حضرت یہ زورآور جانور جوکسی کے قابومیں نہیں آتاوہ آپ کے تابع فرمان کیسے ہوگیاکہ آپ کے اشاروں پر چلتاہے؟؟،انہوں نے بڑاخوبصورت جواب دیااورفرمایا کہ ”تم خالق کے فرمانبرداربن جاؤ مخلوق تمہاری اطاعت گزاربن جائے گی”۔جنگل میں رہنے والے جنگلی جانوروں سمیت کل مخلوقات اللہ تعالی کے حکم کی پابندہیںاوراللہ تعالی نے انہیں بھی اپناعرصہ حیات گزارنے کے لیے کچھ اصول و ضوابط کاپابندبنارکھاہے۔کھاس کھانے والے جانور گوشت نہیں کھاتے اور رینگنے والے جانور چھلانگیں نہیں لگاتے اور بل بناکررہنے والے جانور زمین کے سینے پر اپنا گھرتعمیرنہیں کرسکتے۔اللہ تعالی کی شان ہے کہ جنگلات آلودگی سے پاک ہوتے ہیں،حالانکہ وہاں کی آبادی انسانی شہروں کی آبادی سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔شیر شکار کرتاہے اور خون پی کر اور کچھ گوشت کھاکر چلا جاتاہے۔پھردوسرے نمبر کے گوشت خود جانور،بھڑیے،لگڑبگڑاور باگڑبلے وغیرہ آتے ہیں اور بچاکھچاگوشت بھی کھالیتے ہیں۔اس کے بعد گدھ،چیلیںاوردیگر زمینی و آسمانی مخلوق آتی ہے اور ہڈیاں،بال اور کھال وغیرہ بھی صاف کرجاتی ہے۔آخر میں اللہ تعالی زیرزمین مخلوق کو بھیجتاہے اور بچی کھچی چکنائی،چربی اور فضلات بھی صاف ہوجاتے ہیں اور جنگل کی فضاآلودگی سے پاک ہو کر ایک بار پھرصاف شفاف ہو جاتی ہے۔بصورت دیگر اگر مرے ہوئے جانورپڑے رہتے تو سڑانداور بدبوسے جنگل آج اٹے ہوئے ہوتے لیکن اللہ تعالی نے کیسا خودکار نظام بنایا کہ خود چلابھی رہاہے اور بظاہر نظربھی کہیں نہیں آتا۔
انسانی ادب میں بھی جنگلی جانوروں کاایک بہت اہم ذکررہاہے۔انسان نے اپنی اخلاقی آلائشیں جانوروں کے سرپر تھونپ رکھی ہیں اور اپنی نسلوں کو اخلاقی گراوٹ سے بچانے کے لیے بڑی خوبصورتی کے ساتھ جانوروں کو مورالزام ٹہراتاہے۔مثلاََ لالچ سے بچانے کے لیے بچوں کو کتے کی کہانی پڑھائی جاتی ہے جس نے ایک اورہڈی حاصل کرنے کی لالچ میں اپنے پاس موجود ہڈی بھی کھودی تھی۔اتحاداور یکجہتی و یگانگت کادرس دینے کے لیے تین جنگلی بیلوں کی کہانی پڑھائی جاتی ہے۔”ہرچمکتی ہوئی چیزسونانہیں ہوتی”کی سمجھ بوجھ دینے کے لیے بارہ سنگھے کی کہانی پڑھائی جاتی ہے۔چالاکی اوربہت زیادہ سمجھ داری کے لیے لومڑکے نام کو استعمال کیاجاتاہے،بہادری اورشجاعت کے لیے شیراورچیتے کااستعارہ تمام انسانی لسانی ا دب میں زیراستعمال ہے اسی طرح سانپ کو جہاںمنافقت اور دھوکہ دہی کے طورپر پیش کیاجاتاہے وہاں گیدڑ بزدلی اور ڈرپوک جانورکے طورپر مشہورہے ۔مگرمچھ کو کھانے بعداسی طرح آنسوآتے ہیں جس طرح انسان کو ڈکارآتاہے لیکن مگرمچھ کے آنسوکامحاورہ اس شخص کے لیے استعمال ہوتاہے جو سب کچھ کر سکنے کے باوجود بھی کچھ نہ کرے اور پھر بھی اپنی ناکامی پر افسردہ ہو ۔علامہ اقبال نے شاہین نام کے پرندے کو مسلمان نوجوان کے سامنے بطورمثال کے پیش کیاہے اور اس کے خصائص کو اپنانے کی تلقین کی ہے۔روایات کے مطابق آپۖ کے جنگ میں استعمال ہونے والے جھنڈے پرشاہین کانشان بناہوتاتھا۔”غزل” کالفظ غزال سے نکلاہے جس کے معنی ہرن کے ہیں،شاعر لوگ ہرن کو اس کی خوبصورتی کے باعث پسندکرتے ہیں اور اپنے محبوب کی تعریف جن اشعارمیں کرتے ہیں اسے اسی لیے غزل کانام دیتے ہیں۔
سیکولر مفکرین نے انسان کو بھی حیوان قراردینے کی پوری کوشش کی ہے کیونکہ یہ لوگ عقل کو وحی پر فوقیت دیتے ہیں ۔ایڈم سمتھ اور مالتھس کے مطابق انسان معاشی جانورہے،فرائڈکے مطابق انسان جنسی جانورہے،ڈارون کے نزدیک انسان ایک جانور کی نسل ہے اور برٹرنڈرسل کے نزدیک انسان ایک معاشرتی جانور ہے۔اس فکرپر قرآن مجیدنے بہت پہلے روشنی ڈال دی تھی کہ ”اُولٰئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلّ اُولٰئِکَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ(٧:١٧٩)” ترجمہ:یہ لوگ جانورہیں بلکہ جانوروں سے بھی بدترکیونکہ یہ غفلت کاشکارلوگ ہیں”۔فرق صرف یہ ہے وحی کے پیروکار اپنے کو جانورکہلانا توہین سمجھتے ہیں اوران عادات و خصائل سے بچتے ہیں تاکہ ممیزہوکراشرف المخلوقات کی صف شامل ہو پائیں۔جب کہ عقل کے پرستارخود کو جانورکہلانے پر فخورہیں۔یہی وجہ ہے کہ سیکولر مغربی تہذیب کے شعائر حیوانیت سے مستعار ہیں مثلاََاس تہذیب نے کھانے کے جتنے پکوان متعارف کرائے ہیں وہ جانوروں کی طرح دانتوں میں پکڑکر،کھینچ کراور توڑکر چبائے جاتے ہیں جبکہ انبیاء علیھم السلام نے ماکولات کو اللہ تعالی کے دیے ہوئے دونوں ہاتھوں سے حاصل کیا جو معمول انسانیت ہے۔