عطش درانی کے نام سے شہرت پانے والے عظیم محقق ،مصنف ماہر لسانیات ،بانی اردو اطلاعیات ،تنقید نگار ،ماہر جواہرات ،صحافی اور ممتاز ماہر تعلیم و ماہر اصطلاحات کا اصل نام عطااللہ تھا وہ 22 جنوری 1952 کو ساہیوال میں پیدا ہوئے ابتدائی کلاسز سے ہی وہ نصابی سرگرمیوں کے علاوہ عملی طور پر پڑھنے اور لکھنے میں سرگرم ہو گئے سچ ہے کہ قدرت کو جب کسی سے تاریخ ساز اور بڑا کام لینا مقصود ہوتاہے تو اس کیلئے وہ خود راستے ہموار کرتی اور اسباب پیدا کر دیتی ہے۔
ڈاکٹر عطش درانی ابھی ساتویں جماعت میں زیر تعلیم تھے ان کے ہم جماعت عبدالروف نے ایک رسالہ ہاتھ سے لکھ کر کلاس میں نمائش کیلئے پیش کیا تو ڈاکٹر عطش درانی اس سے بہت متاثر ہوئے اور اسی دن سے رسالے اور کتابیں لکھنے کی ابتدا کی یہ کام پھر ان کیلئے زندگی بھر کا کام بن گیا تمام عمر انہوں نے خود کو علم و ادب کی خدمت اور تحقیق کیلئے وقف کئے رکھا جامعہ پنجاب سے ماسٹر کیا اور جامعہ پنجاب سے ہی اصطلاحات سازی پرتحقیق کرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی شاعری میں انہوں نے اردو کے نامور انقلابی شاعر احسان دانش سے اصلاح لی احسان دانش نے ہی انہیں یہ مشورہ دیا کہ ان کی نثر بہت اچھی ہے اور تحقیق کا رحجان بھی بہت ہے۔
ان کے اس مشورے کے بعد ڈاکٹر عطش درانی نے شاعری کو محض شوق کی حد تک ہی محدود کر لیا اور رفتہ رفتہ تحقیق اور نثر کی طرف راغب ہو گئے پھر مکمل طور پر تحقیق و نثر کو ہی مشق سخن بنا لیا ان کا دامن بے پناہ صلاحیتوں سے مالا مال تھا احسان دانش نے اپنی کتاب ”جہاں دگر” میں ”میرے خود ساز ساتھی ”کے عنوان سے لکھے گئے اپنے مضمون میں ڈاکٹر عطش درانی کا ذکر نہایت خوبصورت الفاظ اور تعریفی انداز میں رقم کیا ۔ڈاکٹر عطش درانی فیض احمد فیض کی شاعری سے بہت متاثر تھے۔ فیض احمد فیض کے متعلق وہ کہتے تھے کہ ”زندگی کا کوئی پہلو ڈھونڈو تو فیض کا کوئی نہ کوئی شعر سامنے آکھڑا ہوتا ہے جبکہ وہ احسان دانش کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
مزدوری اور محرومی کا احساس بیان کرنے میں احسان دانش سے بڑا شاعر کوئی نہیں ”بلاشبہ ڈاکٹر عطش درانی ایک ایسی ہمہ جہت بلند فکر اور بلند پایہ معتبر اور قد آور علمی شخصیت تھے کہ علم و ادب اورتحقیق کی دنیا میں ان کا نام ،کام اور کارنامے ہمیشہ زندہ و جاوید رہیں گے۔ علم و عمل اور سچے جذبوں کی لگن کے ساتھ محنت اورمسلسل کام پر پختہ یقین رکھنے والے ڈاکٹر عطش درانی نے علم و تحقیق کی دنیا میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے کہ آدمی جنہیں دیکھ اور سوچ کر ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ رشک آتا ہے کہ قدرت اس انداز میں جنون ،جذبہ ،لگن اور صلاحیت سے کسی کا دامن مالا مال کردیتی ہے، 275کتابیں انہوں نے لکھیں اور 500مقالہ جات اردو اور انگریزی زبان میں انہوں نے تحریر کئے۔ حفیظ جالندھری کے اس شعر کے مصداق
حفیظ اہل ادب کب مانتے تھے بڑے زوروں سے منوایا گیا
ڈاکٹر عطش درانی نے بھی اپنے عملی کام اور صلاحیت کے بل پر دنیا بھر میں اپنی قابلیت کا لوہا منوایا۔ وہ ماہر اصطلاحات تھے اور پاکستان میں کمپیوٹر کے علم کے بھی معتبر ترین ماہر مانے جاتے تھے۔ ان ہی کی پیش کردہ ”گھوسٹ تھیوری ” کے توسط سے انٹرنیشنل یونی کوڈ پر مختلف زبانوں کے مختلف الفاظ کا استعمال کیا جارہا ہے مثلاً معمولی سے ردو بدل کے ساتھ پشتو ،پنجابی ،سرائیکی ،براہوی ،سندھی ،شنا ،بلتی ،گوجری اور کشمیری زبان کوبا آسانی کمپیوٹر پر لکھا جاسکتا ہے۔ پنجاب حکومت کے رسالہ ”اردو نامہ ”کی ادارت کا فریضہ بھی انہوں نے بخوبی نبھایا۔ مقتدرہ قومی زبان سے منسلک رہے تو یہاں بھی اپنے کام کا ڈنکہ بجایا اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں شعبہ ”پاکستانی زبانیں ”کے سربراہ کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔
ڈاکٹر عطش درانی وسیع القلب شخصیت تھے اور ان کی سب سے بڑی اور نمایاں خوبی یہ تھی کہ وہ تمام زبانوں سے یکساں محبت رکھتے تھے۔ وہ زبان کی بنا پر تعصب برتنے کے رویے کو قبیح عمل تصور کرتے تھے۔ حکومت پاکستان نے انہیں علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں تمغہ امتیاز اور ستارہ امتیاز سے نوازا ۔وہ عہد ساز محقق اور بے مثال علمی شخصیت تھے۔ وہ کائنات کو اللہ تعالیٰ کی خوبصورت تخلیق قرار دیتے تھے۔ ان کی یہ آرزو تھی کہ وہ دوبارہ پید اہوکر دنیا میں لوٹ آئیں۔ علم کے متعلق ان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ تم نے جو کچھ حاصل کیا ہے تو یہ اگلی نسلوں کا قرض ہے جسے سود سمیت ادا کردو۔ ڈاکٹر عطش درانی کی تصنیف ”کتاب الجواہر ”نیشنل بک فائونڈیشن اسلام آباد نے جولائی 2018میں شائع کی۔ افسوس یہ کتاب ان کی زندگی کی آخری کتاب ثابت ہوئی اور وہ 30نومبر2018ء جمعہ کے روز جہان فانی کو خیر باد کہہ گئے۔ اصولِ قدرت ہے اس دنیا میں انسان صرف ایک بار ہی پیدا ہوکر آسکتا ہے دوبارہ ہرگز نہیں۔ کاش ایسا ممکن ہوتا تو ڈاکٹر عطش درانی جو اپنی پیاس کو علم کے سمندر سے سیراب کرتے کرتے ا بھی نہیں تھکے تھے اور ان کا جنون ابھی جوان تھا وہ بھی دوبارہ اس جہاں میں آبستے۔ ساغر صدیقی کا یہ شعر ان کی زندگی پر ہو بہو صادق آتا ہے