امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) ویکسین کی تیزی سے دستیابی کے بعد کئی ریاستیں سماجی پابندیاں اٹھانے کے لیے بے چین ہیں۔ لیکن ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ خطرہ ابھی ٹلا نہیں۔
پیر کو ریاست میسیچوسیٹس نے لوگوں کے باہر نکلنے کے حوالے سے کچھ نرمیوں کا اعلان کیا۔ ریاست میزوری کے دو بڑے شہروں سینٹ لوئس اور کینساس میں بھی کچھ پابندیاں اٹھائی گئیں۔
ادھر ریاست آیووا میں بھی گورنر نے حال ہی میں لازمی ماسک پہننے کی ہدایت میں نرمی کی اور بارز اور ریستورانوں میں لوگوں کی تعداد بڑھانے کی اجازت دی۔
امریکا میں پابندیوں میں اس نرمی پر کاروباری لوگ خوش ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اب جبکہ ویکسین لگنا شروع ہوگئی ہے، روز مرہ کی زندگی کو بتدیج معمول پر آنا چاہییے۔
امریکا میں اب تک بیس فیصد آبادی یعنی کوئی پانچ کروڑ لوگوں کو کورونا ویکسین کا کم از کم ایک ٹیکا لگایا جا چکا ہے جبکہ دس فیصد آبادی کو پچھلے ڈھائی ماہ کے دوران پوری طرح ویکسین دی جا چکی ہے۔
تاہم صحت کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ جلد بازی میں کاروبار دوبارہ کھولنے سے صورتحال خراب ہو سکتی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ امریکا میں کورونا وائرس کی نئی مہلک اقسام سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ احتیاط سے کام لیا جائے۔
جنوری سے امریکا کے ہسپتالوں میں کیسز کی تعداد میں خاصی کمی دیکھنے میں آئی ہے اور اموات کی شرح بھی نمایاں طور پر کم ہوئی ہے۔
لیکن ماہرین کے مطابق یہ تعداد اب بھی خطرناک حد تک زیادہ ہے اور حالیہ چند دنوں میں اس میں کچھ اضافہ بھی دیکھنے میں آیا ہے۔
امریکا میں وبائی امراض پر قابو پانے کے مرکزی ادارے سی ڈی سی کی سربراہ روشیل والینسکی نے ریاستی حکام اور عام امریکیوں کو متنبے کیا ہے کہ محتاط رہیں۔
پیر کو ایک بیان میں انہوں نے اس بات پر گہری تشویش کا اظہار کیا کہ ملک کے بعض حصوں میں حکام ان کی بتائی ہوئی حفاظتی ہدایات کے برعکس اقدامات کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا، “مجھے اس بات پر سخت تشویش ہے کہ ہم اس وبا سے نمٹنے میں کس طرف جا رہے ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ اگر ترجیحات یہی رہیں تو خدشہ ہے کہ “ہم نے اب تک اپنی انتھک محنت سے جو پیش رفت کی ہے وہ سب ضائع ہو جائے گی۔”
روشیل والینسکی کے مطابق امریکا میں اب بھی روزانہ 70000 ہزار کیسز اور 2000 اموات ناقابل قبول ہیں۔