یورپ (اصل میڈیا ڈیسک) ایک ایسے وقت میں جب بہت سے انسان کورونا کی تبدیل شدہ شکل اور اس وبا کی تیسری لہر سے خائف ہیں، یہ سوال ابُھر رہا ہے کہ کیا کورونا وائرس کمزور پڑ رہا ہے یا اس کے خلاف کیے گئے اقدامات بہت موثر ہیں؟
بہار کا موسم بہت سے انسانوں کے لیے ایک نئی امنگ کا پیغام ہوتا ہے، وہ ایک خوشگوار تبدیلی کے منتظر ہوتے ہیں۔ خاص طور سے گزشتہ بہار کے موسم سے لے کر اس سال کا موسم بہار لوگوں کی امیدوں سے زیادہ ان کے صبر کے پیمانے کے لبریز ہونے کا سبب بن رہا ہے۔ اب لوگ بے تاب ہیں یہ جاننے کے لیے کہ لاک ڈاؤن میں نرمی کب آئے گی؟ ویکسینیشن کی باری کب آئے گی اور کب وہ معمول کی زندگی کی طرف آ سکیں گے؟
عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے مبہم بیانات اس سلسلے میں ایک نئی بحث کا سبب بن گئے ہیں۔ ڈبلیو یچ او کے یورپ کے ڈائریکٹر ہانز ہنری کلوگے نے جن کا تعلق بیلجیم سے ہے، ڈنمارک کے ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہہ دیا، ”چند ماہ کے اندر کورونا کی وبا ختم ہو جائے گی۔‘‘
اس متنازعہ بیان پر سوشل میڈیا اور طبی حلقوں میں بہت زیادہ گما گرم بحث کے بعد ڈبلیو ایچ او کے یورپ کے ڈائریکٹر کلوگے نے جرمن نشریاتی ادارے ZDF کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے اس غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کی۔ ان کا کہنا تھا، ”میں نے ایسا کبھی نہیں کہا۔‘‘ مزید وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کسی بھی وبائی مرض کے خاتمے کے بارے میں کوئی پیشگوئی نہیں کر سکتا نہ ہی کہہ سکتا ہے کہ یہ بیماری کب ختم ہوگی۔‘‘ ہانز ہنری کلوگے نے محتاط انداز میں یہ کہا کہ 2022ء کے آغاز تک یہ امید کی جاسکتی ہے کہ ہم اس وبا پر قابو پا لیں گے تاہم کورونا وائرس تب بھی موجود رہے گا لیکن اس شدت کا نہیں کہ اس کی روک تھام کے لیے بہت سخت اقدامات کی ضرورت ہو۔
رونقوں اور خوشبوؤں اور روشنیوں کا شہر پیرس ویران پڑا ہے۔
طبی اور سائنسی حلقوں میں ڈبلیو ایچ او کے یورپی ڈائریکٹر کے مبینہ بیانات نے ہلچل مچا دی۔ برلن میں قائم متعدی بیماری کے تحقیقی ادارے شاریٹی سے منسلک ماہر وائرولوجسٹ کرسٹیان ڈروسٹن نے اس خیال کو سرے سے رد کر دیا ہے کہ کورونا وائرس کمزور پڑ چُکا ہے۔ ان کے بقول، ”فی الحال ایسے کسی میوٹنٹ یا تبدیل شدہ وائرس کے کمزور ہونے کے کوئی آثار نہیں ملے ہیں۔‘‘ انہوں نے اس طرح کے خیال کو قطعی قیاس آ رائی قرار دیا۔
شیرٹی سے تعلق رکھنے والے متعدی امراض کے ایک اور جرمن ماہر نے جنوری کے آغاز میں ہی میڈیا کو دیے گئے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس وبا کے خماتمے کے کوئی آثار نہیں لیکن یہ آئندہ مقامی سطح تک ہی محدود رہے گا۔ وائرولوجسٹ کرسٹیان ڈروسٹن نے 2021ء میں کورونا کی سنگین اور خطرناک صورتحال سے متنبہ کیا ہے۔ وائرولوجسٹ کارل لاؤٹرباخ بھی انہی خیالات کے حامل ہیں اور انہوں نے سیاستدانوں کو لاک ڈاؤن میں نرمی کے سلسلے میں جلد بازی سے خبر دار کیا ہے۔
روم کے ایک ہسپتال کا ایک مخصوص کمرہ جس میں ڈاکٹرز پلاسٹک کے محفظ لباس میں اپنے ساتھیوں سے گلے مل سکتے ہیں۔
دنیا بھر میں کورونا انفیکشن کی تصدیق شدہ تعداد 114 ملین کے لگ بھگ ہو گئی ہے۔ فروری کے اواخر تک کورونا کے سبب ہلاکتوں کی تعداد 25 لاکھ ہو چُکی تھی تاہم اب تک اس وائرس کا شکار ہونے والے 64.4 ملین افراد صحت یاب بھی ہوئے ہیں۔
یہ وائرس یقیناً خوفناک حد تک پھیلا اور اب بھی انفرادی ممالک میں یہ مسلسل پھیل رہا ہے۔ اس کی تبدیل شدہ شکل کے سبب بہت سے معاشروں میں وائرس کی تیسری لہر کے خدشات بڑھے ہوئے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او نے تاہم کہا ہے کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران عالمی سطح پر اس انفیکشن میں نمایاں کمی آئی ہے۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران کووڈ انیس سے ہونے والی اموات کی تعداد بھی نصف ہوئی ہے۔
ماہرین کے اندازے یہی بتاتے ہیں کہ کورونا وائرس غالباً محدود مقامات پر پایا جاتا رہے گا۔ تبدیل شدہ شکل کے اُبھرنے سے تاہم کورونا وائرس کمزور پڑجائے گا۔ ایک بات تاہم طے ہے کہ جب تک عالمی سطح پر کورونا کا زور ٹوٹنے کا مثبت ٹرینڈ سامنے نہیں آتا تب تک لاک ڈاؤن اور ضروری احتیاطی تدابیر اور پابندیاں جاری رہیں گی۔