سینٹ الیکشن کا عوام سے کیا تعلق؟اس پر بات کرنے سے پہلے کچھ تازہ ترین صورتحال سپریم کورٹ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ صدارتی ریفرنس پر رائے دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت سینیٹ الیکشن خفیہ ہوں گے، الیکشن کمیشن شفاف انتخابات کو یقینی بنائے، انتخابی عمل سے کرپشن ختم کرنا اور شفاف انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، کرپٹ پریکٹسز روکنے کیلئے الیکشن کمیشن جدید ٹیکنالوجی کی مدد لے، تمام ادارے الیکشن کمیشن کی معاونت کریں، ووٹ ہمیشہ خفیہ نہیں رہ سکتا 5 رکنی بینچ میں چیف جسٹس گلزار احمد کے ساتھ ساتھ جسٹس مشیر عالم، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس یحیی آفریدی بھی شامل تھے۔ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے 4 ایک کی اکثریت سے رائے دی اور چیف جسٹس نے رائے پڑھ کر سنائی اور بتایا کہ جسٹس یحیی آفریدی نے اس رائے سے اختلاف کیا وفاقی حکومت نے 23 دسمبر 2020 کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی منظوری کے بعد سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا تھا۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ میں ریفرنس بھجوانے کی وزیرِ اعظم کی تجویز کی منظوری دی تھی اور ریفرنس پر دستخط کیے تھے۔ عدالت عظمی میں دائر ریفرنس میں صدر مملکت نے وزیر اعظم کی تجویز پر سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کی رائے مانگی تھی۔ ریفرنس میں موقف اپنایا گیا تھا کہ آئینی ترمیم کے بغیر الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرنے کے لیے رائے دی جائے۔ صدارتی ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ خفیہ انتخاب سے الیکشن کی شفافیت متاثر ہوتی ہے اس لیے سینیٹ کے انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے منعقد کرانے کا آئینی و قانونی راستہ نکالا جائے۔ بعد ازاں قومی اسمبلی میں اس حوالے سے ایک بل پیش کیا گیا تھا جہاں شدید شور شرابا کیا گیا اور اپوزیشن نے اس بل کی مخالفت کی، جس کے بعد حکومت نے آرڈیننس جاری کیا۔ صدر مملکت نے 6 فروری 2021 کو سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لیے آرڈیننس پر دستخط کیے تھے اور اسے جاری کردیا گیا تھا، آرڈیننس کو الیکشن ترمیمی آرڈیننس 2021 کا نام دیا گیا تھا اور اس آرڈیننس کو سپریم کورٹ کی صدارتی ریفرنس پر رائے سے مشروط کیا گیا تھا۔
آرڈیننس کے مطابق اوپن ووٹنگ کی صورت میں سیاسی جماعت کا سربراہ یا نمائندہ ووٹ دیکھنے کی درخواست کرسکے گاایک بات تو طے ہے کہ اتنے بڑے ادارہ جسے ایوان بالا بھی کہا جاتا ہے کرپشن کی بھر مار ہے جس نمائندے نے منتخب ہونا ہوتا ہے اسکی بنیاد ہی جوڑ توڑ،پیسہ اور مک مکا ہو تو پھر اس ادارے کا انجام کیا ہوگا جب اتنے بڑے ادارے کے اراکین کے انتخابات میں شفافیت پر سوال اٹھیں گے تو ان کی اخلاقی حیثیت کمپرومائز ہوتی ہے اور جو پیسے کے زور پر آتے ہیں وہ اپنے، گروہی اور کاروباری مفادات کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں کرسکتے کیوں کہ ان کے ذاتی مفاد ان کے آڑے آتے ہیں جس کے نتیجے میں ملک اور عوام کی بہتری کے لیے فیصلے نہیں ہو پاتے یہی وجہ ہے کہ ہمارا ملک تمام تر وسائل ہونے کے باوجود اخلاقی اور معاشی طور پر وہ ترقی نہیں کرسکا جس کا وہ حقدار ہے اور اس کا آغاز پارلیمان سے ہوتا ہے۔
اسی وجہ سے حکومت سپریم کورٹ گئی اور آئین کی دفعہ 226 کی وضاحت چاہی، پارلیمان میں بل پیش کیا اور صدارتی ریفرنس جاری کیا جسکا کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ عملی طور پر اقدامات کیے جائیں اور آئین کی تشریح کا واحد پلیٹ فارم یعنی سپریم کورٹ اس میں رہنمائی کرے حکومت نے جو آئین کی تشریح مانگی تھی وہ بہت اچھا فیصلہ تھا اب آتے ہیں سینٹ الیکشن کا عوام سے کیا تعلق؟ پاکستان میں سینٹ کے الیکشن کون لڑتا ہے کون لڑاتا ہے اور یہ الیکشن کس طرح ہونے چاہیے الیکشن کے بعد سینٹ کا عام لوگوں کی زندگیوں پر کیا اثر ہوتا ہے مجھے یقین ہے کہ اراکین اسمبلی کی اکثریت سمیت 90فیصد عوام کو معلوم ہی نہیں کہ سینٹ ہے کیا سینٹ کے الیکشن کیوں ہوتے ہیں ادھر سے جو لوگ الیکشن جیتتے ہیں ان کی ذمہ داریاں کیا ہوتی ہیں وہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا کس میدان میں منواتے ہیں سینٹر کاتعلق عوام سے کس طرح کا ہوتاہے سینٹر کیا کام کرتے ہیں۔
ہمیں تو صرف عام انتخابات کا ہی علم ہے وہ بھی بخوبی نہیں ہمیں تو یہ بھی نہیں پتا کہ عام انتخابات میں ووٹ کس طرح سے کاسٹ کیا جاتا ہے اور پھر رہی بات سینٹ کے الیکشن کی تو عوام کا چونکہ اس سے کوئی براہ راست رابطہ نہیں ہے اس لیے لوگوں کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے مگر بحیثیت قوم ہمیں جاننا چاہئے کہ سینیٹ کیا ہے اس میں کون سے نمائندے کیا کام کرتے ہیں اور وہ کیسے منتخب ہوتے ہیں کیا عام انتخابات کی طرح ان نمائندوں پر دھاندلی کا الزام لگتا ہے ہارس ٹریڈنگ کی حقیقت کیا ہے سینٹ کے الیکشن ہر چھ سال بعد ہوتے ہیں اورسینیٹر قانون سازی میں مددگار ہوتے ہیں اس اہم ترین الیکشن کو سمجھنے کے لیے کئی اہم سوالوں کے لیے جواب حاصل کرنے کے لیے سینیٹ انتخابات میں ووٹنگ کے طریقہ کار اور نشستوں کے اصول کو سمجھنا لازم قرار دیا جاتا ہے ترجیحی انتخابات کہلانے والے سینٹ الیکشن کے عمل کو آئینی قانونی سیاسی اور انتخابی ماہرین بھی قدرے پیچیدہ جانتے ہیں یہ خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہونے والا عمل ہے اور یہ عمل ماضی میں بھی کئی حیران کن انتخابی نتائج کی وجہ سے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
بہرحال ہمارے ملک میں انتخابات کی نوعیت کوئی بھی ہو الیکشن کے ساتھ سلیکشن کا لفظ لگ ہی جاتا ہے ایک پارٹی دوسری پارٹی پر الزامات کی بوچھاڑ کر ہی دیتی ہے کہ حکومت میں آنے والی جماعت دھاندلی اور دھوکہ دہی سے آئی ہے اشرافیہ کے لوٹے صفت لوگ ایک پارٹی سے تو کبھی دوسری پارٹی سے سے حکومت میں آ کر لوگوں کو بیوقوف بناتے ہیں عام اور غریب لوگ سیاست میں آتے ہوئے گھبراتے ہیں چونکہ کہ الیکشن کمپین پر پیسہ لگانا عام اور شریف بندے کا کام نہیں رہااسی لیے تو ہماری سیاست جاگیرداروں سرمایہ داروں اور وڈیروں کے گرد ہی گھومتی رہی ہے اور آج بھی گھوم رہی ہے۔