اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) ملک کا سیاسی منظر نامہ ملک کی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے خود کو سیاسی معاملات سے دور رکھنے کے بعد حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے نقصان میں جانا شروع ہو گئی ہے۔
اپوزیشن جماعت کے امیدوار کی حیثیت سے یوسف رضا گیلانی کی کامیابی عمران خان حکومت کیلئے ایک بڑا دھچکا اور ممکنہ طور پر زرداری کی زیر قیادت پیپلز پارٹی کی مبینہ ہارس ٹریڈنگ کا نتیجہ ہے۔
گیلانی کی کامیابی کو پی ڈی ایم رہنماؤں کی قیادت کی بڑی کامیابی سمجھا جا رہا ہے لیکن یہ صورتحال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ کس طرح ارکان اسمبلی خفیہ طور پر اپنی وفاداریاں تبدیل کرتے ہیں جس کی وجہ پیسہ ہو سکتی ہے یا پھر اثر رسوخ۔ اگر زیادہ دیر نہیں ہوئی تو وزیراعظم عمران خان کو اپنی سیاست کے انداز پر غور کرنا چاہئے کیونکہ اس انداز میں ان کی ضد بھی اور تصادم کی سیاست بھی۔
عمران خان کو اس بات کا بھی احساس کرنا چاہئے کہ باکردار لوگوں کی بجائے ’’الیکٹیبلز‘‘ پر داؤ کھیلنے سے ان کیلئے باعثِ ہزیمت ماحول پیدا ہوگا اور اس کا نتیجہ ہارس ٹریڈنگ اور بے وفائی ہوگا۔ اب اُس صورتحال میں عمران خان کیا کریں گے جب پی ڈی ایم والے یہ کہیں گے کہ حکومت کو اکثریت کا اعتماد حاصل نہیں رہا۔
وزیراعظم دباؤ میں ہوں گے کہ وہ اعتماد کا ووٹ حاصل کریں اور یہ موجودہ صورتحال میں ایک مشکل کام ہوگا اسلئے ممکنہ طور پر اس سے گریز کیا جائے گا یا پھر تاخیر سے کام لیا جائے گا۔ پی ٹی آئی اس صورت میں مطمئن رہے گی جب اپوزیشن وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لائے کیونکہ اس وقت اپوزیشن کو ایوان میں اپنی اکثریت ثابت کرنا ہوگی۔
ماضی میں عدم اعتماد کی تحریک کامیاب نہیں ہوئی۔ امکان نہیں کہ اگر پی ڈی ایم والے یہ تحریک پیش کریں گے تو یہ کامیاب ہو پائے گی۔ وزیراعظم کو دی جانے والی تجاویز میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ قومی اسمبلی کو تحلیل کر دیں اور نئے انتخابات کرائیں۔ تاہم، موجودہ سیاسی صورتحال ایسے کسی اقدام کیلئے سازگار نہیں کیونکہ اس کی کارکردگی خراب ہے، مہنگائی زیادہ ہے اور معاشی صورتحال بھی بُری ہے۔ نہ صرف حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج نے حکمران جماعت کو دکھا دیا ہے کہ اس کی مقبولیت ختم ہو رہی ہے بلکہ آزاد سروے سے بھی معلوم ہوا ہے کہ عمران خان کی جماعت زوال کا شکار ہے۔
گیلانی کی کامیابی کے بعد، پی ڈی ایم عمران حکومت پر دباؤ بڑھائے گی اور حکومت نے اب اپنے طور پر سیاسی صورتحال سے نمٹنا شروع کر دیا ہے کیونکہ اُسے اسٹیبلشمنٹ کی ممکنہ حمایت نہیں رہی۔ کہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ حکومت کی ناکامیوں کی ذمہ داری مزید اپنے سر نہیں لینا چاہتی۔
ایسے وقت جب اسٹیبلشمنٹ مزید سیاسی معاملات میں کودنے سے ہچکچا رہی ہے، وزیراعظم خود کو مشکل حالات میں محسوس کریں گے کیونکہ انہوں نے قومی معاملات پر بھی کبھی اپوزیشن کے ساتھ بات کرنے میں دلچسپی نہیں دکھائی۔ اس کی بجائے وہ متکبرانہ انداز سے اپنی حکومت کے ابتدائی دنوں میں معیشت، طرز حکمرانی اور ادارہ سازی کے حوالے سے مشاورت اور پالیسی سازی پر مذاکرات کیلئے اپوزیشن کی پیشکش ٹھکراتے رہے ہیں۔
ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جہاں قومی اہمیت کے معاملات پر بھی وزیراعظم نے اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کردیا اور آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے کہا کہ وہ اُن کے سیاسی مخالفین سے مذاکرات کر لیں تاکہ اُن معاملات پر اتفاق رائے پیدا کیا جا سکے۔
اس پس منظر میں دیکھیں تو عمران خان حکومت کو سنگین سیاسی مشکل کا سامنا ہے۔ انہیں جارحانہ اپوزیشن اور ناقابل پیشگوئی اتحادیوں سے نمٹنا ہے اور ساتھ ہی اپنی حکومت کی کارکردگی بہتر بنانا ہے۔ اگر ناممکن نہیں تو عمران خان اور ان کی حکومت کا گزشتہ ڈھائی سال کا رویہ اور کارکردگی دیکھ کر یہ بہت ہی مشکل نظر آتا ہے۔
سیاسی عدم استحکام میں مزید اضافہ ہوگا۔ اس سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت ایک چھت تلے مل بیٹھے لیکن اب ایسا ممکن نہیں۔ ماضی میں عمران خان ایسا کرنے کی اہلیت رکھتے تھے لیکن اب اگر وہ ایسا چاہیں بھی تو نہیں کر سکتے۔ اب پی ڈی ایم والے وزیراعظم کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے تاوقتیکہ نئے عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جائے۔