جرمی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمن وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی افواج کی موجودگی کے بغیر طالبان مذاکرات کے لیے بھی تیار نہیں ہوں گے۔
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے افغانستان میں بیرونی افواج کا یہ کہہ کر دفاع کیا کہ امن مذاکرات جاری رکھنے کے لیے ان کی موجودگی ناگزیر ہے۔ ماس نے عالمی برادری سے بھی یہ مطالبہ کیا کہ غیر ملکی افواج کے غیر ذمہ دارانہ اور قبل از وقت انخلا سے گریز کیا جائے، کیونکہ بقول ان کے یہ طالبان کے ہاتھوں میں کھیلنے جیسا ہوسکتا ہے۔
جرمن پارلیمان سے خطاب میں انہوں نے کہا، “بین الاقوامی فوج کی موجودگی ہماری سب سے اہم اضافی قوتوں میں سے ایک ہے، بغیر عالمی دباؤ کے طالبان سنجیدہ طور پر سیاسی حل کے لیے کام نہیں کریں گے۔ اگر ہم نے فوجیں نکالنے میں عجلت کی تو ہم ایک ایسا خطرہ مول لیں گے کہ پھر طالبان مذاکرات جاری رکھنے کی بجائے جنگ کے میدان میں حل تلاش کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔”
جرمن پارلیمان کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ افغانستان میں جرمن فوج کی موجودگی کی معیاد میں 31 جنوری 2022 تک توسیع کی جائے یا نہیں۔ پہلے سے منظور شدہ معیاد رواں ماہ کے اختتام پر ختم ہو رہی ہے۔
جرمن پارلیمان (بنڈس ٹاگ) کے بیشتر ارکان افغانستان میں جرمن فوج کے مشن کو فی الوقت جاری رکھنے کے حامی ہیں۔ جمعرات کو اس موضوع پر پارلیمان میں بحث کے دوران صرف ‘الٹرنیٹیو فار جرمنی (اے ایف ڈی) پارٹی اور بائیں بازو کی جماعت نے فوری طور پر افغانستان سے جرمن فوج کے انخلاء کا مطالبہ کیا۔
اے ایف ڈی کے رہنما اینٹن فرائیزین کا کہنا تھا، “جرمنی کا دفاع ہندو کش سے نہیں کیا جاتا ہے بلکہ اس کا دفاع برینڈن برگ سے ہوتا ہے۔”
جرمن فوج کے تقریباً ساڑھے چار ہزار اہلکار افغانستان میں تعینات ہیں اور سترہ سو گاڑیاں اور سامان سے بھرے ہوئے چھ ہزار کنٹینرز ان کے علاوہ ہیں۔ 2014ء کے اختتام تک تمام سامان حرب کو جرمنی واپس لانا ہے۔
جرمن وزیر دفاع اینی گریٹ کرامپ کارین باؤر نے پارلیمان میں بحث کے دوران کہا وہ طالبان کی حالیہ دھمکیوں کو کافی سنجیدگی سے لے رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا، “آنے والا وقت خطرناک ہو گا۔”
افغانستان میں اس وقت جرمنی کے تقریبا ایک ہزار تین سو فوجی تعینات ہیں اور اس تعداد کے لحاظ سے بیرون ملک جرمن فوج کی یہ سب سے بڑی تعیناتی ہے۔
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس کا کہنا تھا، “افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات طویل عرصے کے بعد افغانستان میں امن کے لیے ایک حقیقی موقع ہے، ایک ایسا موقع ہے جسے ہمیں کسی بھی حال میں ضائع نہیں کرنا چاہیے۔”
ٹرمپ انتظامیہ نے طالبان کے ساتھ جو امن معاہدہ کیا تھا اس کے مطابق بیرونی افواج کو رواں برس یکم مئی تک افغانستان سے نکلنا ہے۔ تاہم جو بائیڈن کی انتظامیہ اس معاہدے کا از سر نو تجزیہ کر رہی ہے اور جلد ہی اس حوالے سے اعلان کی توقع ہے۔