موغا دیشو (اصل میڈیا ڈیسک) پولیس کو شبہ ہے کہ ایک خود کش بمبار نے دارالحکومت موغادیشو کے کافی مقبول ریستوراں کے باہر کار سے دھماکا کیا ہے۔
صومالیہ کے دارالحکومت موغا دیشو میں ایک ریستوراں کے باہر جمعے کی شام کو ہونے والے ایک کار بم دھماکے میں متعدد افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے۔ حکام کے مطابق متاثرہ عمارت کے ملبے میں پھنسے بہت سے لوگوں کو اب بھی نکالنے کا کام جاری ہے اس لیے ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے۔
اب تک ہمیں کیا معلوم ہے؟ مقامی پولیس نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا ہے کہ اس دھماکے میں اب تک 21 افراد ہلاک اور 30 دیگر زخمی ہوئے ہیں۔ اس سے قبل حکام نے خبر رساں ادارے ایسو سی اییڈ پریس کو بتایا تھا کہ دھماکے میں کم از کم 10 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
یہ دھماکا اس وقت ہوا جب لوگ رات کا کھانا کھا رہے تھے اور ریستوراں پوری طرح سے بھرا ہوا تھا۔ دھماکا اتنا زور دار تھا کہ شہر میں ہر جانب اس کی آواز سنی گئی۔ ریستوارں کی عمارت تباہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے آس پاس کی بھی متعدد عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے جبکہ پاس کی ایک دیگر عمارت دھماکے کے سبب پوری طرح سے تباہ ہو گئی۔
لولو یمنی نامی اس ریستوارں پر اس نوعیت کا یہ دوسرا حملہ ہے۔ کھانے کی مناسبت سے یہ شہر کے ورکروں، حکومتی ملازمین اور سکیورٹی فورسز کے عملے میں کافی مقبول ہے۔
حکام نے اس حملے کے لیے شدت پسند گروپ الشباب پر ذمہ داری عائد کی ہے۔ اس گروپ کا تعلق القاعدہ سے ہے جو اکثر موغا دیشو کے ہوٹلوں اور ریستورانوں کو دھماکوں سے نشانہ بناتا رہا ہے۔ صومالی حکومت کا تختہ پلٹنے کے مقصد سے یہ گروپ گزشتہ کئی برسوں سے سرکاری فورسز سے بر سر پیکار ہے اور بموں سے حملے کرتا رہا ہے۔ فی الوقت صومالیہ کے ایک بڑے جنوبی اور مرکزی علاقے پر الشباب کا کنٹرول بھی ہے۔
مذکورہ ریستوراں کو دھماکے سے نشانہ بنانے سے قبل دن میں الشباب کے مشتبہ شدت پسندوں نے نیم خود مختار صوبے پنٹ لینڈ کے بندرگاہی شہر بوساسو کے ایک قید خانے پر حملہ کر کے کم سے کم آٹھ سکیورٹی فورسز کو ہلاک کر دیا تھا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اس حملے کی وجہ سے مشتبہ دہشت گردوں سمیت متعدد قیدی جیل سے فرار ہوگئے۔ شدت پسند گروپ الشباب نے یہ کہتے ہوئے جیل پر اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے کہ اس نے تقریبا چار سو قیدیوں کو آزاد کرا لیا ہے۔
صومالیہ میں اپوزیشن اتحاد نے عام انتخابات میں تاخیر کے خلاف ہفتہ چھ مارچ کو بڑے پیمانے پر موغادیشو میں مظاہروں کا اعلان کیا تھا۔ حکام نے اس کے پیش نظر شہر میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے تھے اور ہزاروں کی تعداد میں سکیورٹی فورسز کو تعینات کیا گيا ہے۔
تاہم اس مہلک دھماکے اور تشدد کے خطرات کے سبب اس احتجاجی مظاہرے کو ملتوی کر دیا گیا ہے۔