آٹھ مارچ کو دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا گیا اس دن کو منانے کا مقصد خواتین کے ساتھ ہونے والے نارواسلوک کو ختم کرنا ہے اسی دن یعنی 8 مارچ 1907 میں نیو یارک میں لباس سازی کی فیکٹری میں کام کرنے والی سینکڑوں خواتین نے مردوں کے مساوی حقوق اور اپنے حالات بہتر کرنے کے لیے مظاہرہ کیاتھا۔پولیس نے سینکڑوں خواتین کو نہ صرف لاٹھیاں مار کر لہو لہان کیا بلکہ بہت سی خواتین کو جیلوں میں بھی بند کر دیا گیا۔ 1910 میں کوپن ہیگن میں خواتین کی پہلی عالمی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں 17 سے زائد ممالک کی تقریبا ایک سو خواتین نے شرکت کی۔ کانفرنس میں عورتوں پر ہونے والے ظلم واستحصال کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ سب سے پہلے 1909 میں سوشلسٹ پارٹی آف امریکا نے عورتوں کا دن منانے کی قرارداد منظور کی۔ 1913 تک ہر سال فروری کے آخری اتوارکو عورتوں کا دن منایا جاتا تھا۔ پھر 1913 میں پہلی دفعہ روس میں خواتین کا عالمی دن منایا گیا اگر دیکھا جائے تو دنیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ مظالم مقبوضہ کشمیر کی خواتین کے ساتھ ہورہے ہیں مقبوضہ کشمیر میں جنوری 1989ء سے اب تک بھارتی فوجیوں نے دوہزار سے زائد خواتین کو شہید کیا۔
جنوری 2001 سے اب تک کم سے کم674 خواتین شہید ہوئیں۔1989ء سے اب تک 20ہزار کے قریب خواتین بیوہ ہوئیں۔ 1989 میں حریت پسندجدوجہد شروع ہونے کے بعد سے کشمیر میں خواتین کو بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ خواتین کے ساتھ زیادتی کی گئی، تشدد کا نشانہ بنایا گیا، معذور اور قتل کیا گیا۔ کشمیری خواتین دنیا میں بدترین جنسی تشدد کا شکار ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 9فیصد کشمیری خواتین جنسی استحصال کا شکار ہوئی ہیں۔ 10 فروری 2021 کو بھارتی فوجیوں نے ایک لڑکی کے ساتھ زیادتی کی جب وہاور اس کی بہن بانڈی پورہ میں اپنے باغ میں کام کر رہی تھیں۔ اس کی بہن کی چیخ و پکار سن کر مقامی افراد نے وہاں پہنچ کر ان کو تلاش کیا۔متاثرہ خاندان نے اجاس پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کی لیکن فوجیوں نے اس معاملے کو واپس لینے کے لئے خاندان کو ذہنی اذیت دے کر اس معاملے کو دبادیا۔ کشمیری مزاحمتی رہنماوں اور انسانی حقوق کے گروپوں نے ہمیشہ مقبوضہ کشمیر میں پیش آنے والے سانحہ کنن پوش پورہ، اجتماعی عصمت دری اور سانحہ شوپیاں سمیت خواتین کے خلاف عصمت دری، قتل اور انسانی حقوق کی پامالی کے دیگر واقعات کی غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
فروری 1991 میں کپواڑہ کے کنن پوش پورہ میں بھارتی فوجیوں نے 100 سے زائد خواتین کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی جبکہ دو خواتین آسیہ اور نیلوفر کو مئی 2009 میں شوپیاں میں وردی میں بھارتی اہلکاروں نے اغوا کیا، زیادتی کا نشانہ بنایا اور اس کے بعد قتل کردیا جبکہ2018میں جموں کے علاقے کٹھوعہ میں 9 سالہ بچی آصفہ کی بھارتی پولیس اور ایک ہندو پجاری نے اجتماعی عصمت دری کی تھی۔ گھناونے فعل میں پاٹ پوجا کرنے والا بھی شامل تھا تو کم عمر لڑکے بھی۔ اس پر ہی بس نہیں ہوئی زیادتی کرنے والوں نے تو جو کیا سو کیا، بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماوں نے ملزمان کے حق میں جلسے بھی کئے جبکہ بھارتی فوج خواتین کی عصمت دری کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ پورٹ کے مطابق زیادتی کے بیشتر واقعات محاصرے اور تلاشی کے آپریشنز کے دوران پیش آئے۔ ایچ آر ڈبلیو کی ایک اوررپورٹ کے مطابق، کشمیر میں سکیورٹی اہلکاروں نے عصمت دری کو انسداد بغاوت کے حربے کے طور پر استعمال کیا ہے۔القمرآن لائن کی ایک رپورٹ میں ایک اسکالر انجر سکجلس بائیک کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ کشمیر میں عصمت دری کا انداز یہ ہے کہ جب فوجی سویلین رہائش گاہوں میں داخل ہوتے ہیں تو وہ عورتوں سے زیادتی سے قبل مردوں کو مار ڈالتے ہیں یا بے دخل کردیتے ہیں۔ ایک اور اسکالر شبھ متھور نے عصمت دری کو “کشمیر میں بھارتی فوجی حکمت عملی کا ایک لازمی عنصر” قرار دیا ہے۔
8 جولائی 2016 کو کشمیری نوجوان برہان وانی کے قتل کے بعد سے سینکڑوں کشمیری نوجوان اور طلبہ اور طالبات بھارتی فورسز کی طرف سے گولیوں اورپیلٹ گنزکے استعمال سے زخمی ہو چکے ہیں۔ ان زخمیوں میں سے انشاء مشتاق اورافراء شکور سمیت کم سے کم 70بچے اور بچیاں بینائی کھو چکے ہیں جبکہ 18ماہ کی شیر خوار بچی حبہ نثار اور 32سالہ نصرت جان کی بینائی جزوی طورپر متاثر ہوئی۔ آزادی پسند رہنماؤں آسیہ اندرابی، فہمیدہ صوفی اور ناہیدہ نسرین سمیت متعدد خواتین پر نظربند ہیں۔ جبکہ 3مارچ کو بھارتی تفتیشی ایجنسی، این آئی اے نے ایک نوجوان خاتون انشا طارق (26) کو پلوامہ حملہ کیس میں گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا۔جس پر حریت تنظیموں اور رہنماوں نے شدید احتجاج بھی کیاتھا اس وقت نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا کشمیریوں میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے جن کے عزیز اور رشتہ دار لاپتہ ہیں۔ کشمیر میں خواتین کے جنسی استحصال کو ریاستی پالیسی کے طور پربھی استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ ان واقعات کو فوجی مقاصد یعنی سیاسی دہشت گردی، آزادی کی آواز دبانے اور سٹیٹس کو کے خلاف مزاحمت کچلنے کیلئے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔
گزشتہ سات دہائیوں سے کشمیری خواتین اپنے وطن میں امن اور بنیادی حقوق کے حصول کیلئے قربانیاں دے رہی ہیں – کشمیرکی مائیں اب بھی 1991 میں کشمیری خواتین سے ہونے والے اجتماعی زیادتی کے واقعات کا سوچتی ہیں تو خوف سے کانپ جاتی ہیں۔ کشمیر کی نوجوان لڑکیوں کو بھی ان دیکھی آفت کا سوچ کر ہول اٹھتے ہیں جو یہ سنتے سنتے بڑی ہوئی ہیں کہ آزادی کشمیر کی اگر جنگ ہوئی تو جانیں جائیں گی اور اموات کی گنتی ختم ہو جائے گی اور کتنی کشمیری عورتوں کی عزتیں پامال ہوں گی، قابض فوج کے ہاتھوں کتنوں کے جسم نوچے جائیں گے، ان دردوں کا شمار ممکن نہ ہوگا۔ 5اگست 2019کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد یو پی سے بی جے پی کے رہنما وکرام سنگھ سائنی نے پارٹی کارکنوں کو خوشخبری سناتے ہوئے کہا کہ ان کے وزیراعظم مودی نے کشمیر کے راستے کھول دیے، بھارتی جنتا اور خاص طور پر مسلمان لڑکوں کو خوش ہونا چاہیے کہ اب وہ گورے رنگ کی کشمیری لڑکیوں سے شادی رچا سکیں گے ایسا ہی بھارتی ریاست ہریانہ کے وزیر اعلی منوہر لال کھتر نے ایک جلسے میں کہا کہ ہریانہ کی آبادی میں جنس کے تناسب کو برابر کرنے کے لیے کشمیر سے گوری لڑکیاں لے آئیں گے۔ ان کی اس بات پر جلسے کے شرکا نے ایک ٹھٹھا لگایا اور تالیاں بجائیں جیسے کشمیر کی لڑکیاں نہ ہوئیں ریوڑیاں ہیں جو جب میٹھا کھانے کا جی چاہا اٹھا لائیں گے۔
شاید کسی کو بھارتی حکمران جماعت سمیت مذہبی شدت پسندوں کی اس سوچ پر حیرت ہو رہی ہو، شاید کسی کو یہ گمان ہو کہ یہ محض سیاسی بیانات ہیں، مگر کشمیر کی 70 سالہ سیاسی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کشمیری خواتین کے ساتھ ایسا ہی ہوتا آیا ہے کشمیری خواتین ہمیشہ سے نشانے پر رہی ہیں نوے کی دہائی میں بین الاقوامی میڈیا میں ایسے واقعات بھی رپورٹ ہوئے کہ پوری بارات کے سامنے نوبیاہتا دلہن کی عصمت دری کی گئی۔ یہ سب صدیوں پرانی تاریخ نہیں ابھی کوئی 30 سال پرانی باتیں ہیں جن کے متاثرہ خاندان اب بھی اس ناسور کو دل میں لیے بیٹھے ہیں موجودہ مقبوضہ کشمیر انسانی ظلم وجبر کی بدترین مثال ہے اوربالخصوص وہاں عورتوں کے حقوق کی صورتِ حال انتہائی دگرگوں ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں خواتین بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں جو یونیورسل ڈیکلیریشن آف ہیومن رائٹس (UDHR) اور خواتین کے حقوق کے عالمی بل یعنی میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاس کئے گئے Convention on the elimination of all form of discrimnation against women (CEDAW)کے تحت دیئے گئے ہیں یہ بل عورتوں کو سیاسی،معاشرتی، ثقا فتی اور زندگی کے کسی بھی شعبہ میں بنیادی حقوق اور آزادی فراہم کرتا ہے مگر بد قسمتی سے عالمی قوانین کا کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال پر کوئی اثرنہیں ہے اور بھارتی حکومت کشمیر میں عوام بالخصوص خواتین کو اِن کے بنیادی حقوق فراہم نہیں کر رہی- یہی وجہ ہے کہ بھارتی حکومتیں عالمی مبصرین اور غیر ملکی صحافیوں کو جموں و کشمیر میں داخلہ کی اجازت نہیں دیتیں – مقبوضہ کشمیر میں عورتوں کی عصمت دری بنا خوف و خطر کی جاتی ہے- بھارتی حکومت کے جبر، انتقامی کاروائی اور معاشرے میں بدنامی کے خوف کی وجہ سے بہت سے کیسز رپورٹ ہی نہیں ہو پاتے بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں نافذ کردہ سیاہ قوانین قابض افواج کے جرائم کو تحفظ فراہم کرتے ہیں اور اس سے کشمیریوں کے دکھ درد میں مزید اضافہ ہورہا ہے بلخصوص بیوہ خواتین اپنے مقتول شوہروں کا بوجھ بھی اٹھائے ہوئے ہیں کیونکہ آٹھ لاکھ بھارتی فوج کی موجودگی میں ان کیلئے اپنے اور اپنے بچوں کیلئے روزگار کمانا ناممکن بن گیا ہے اور وہاں پر یتیموں کو صحت اور تعلیم کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔
u کشمیر میں یہ حالات حادثاتی نہیں بلکہ انہیں فوجی مقاصد یعنی سیاسی دہشت گردی، آزادی کی آواز دبانے اور سٹیٹس کو کے خلاف مزاحمت کچلنے کیلئے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔پوری دنیا میں خواتین کے حقوق پر باتیں ہورہی ہیں بلکہ بعض ممالک میں تو جانوروں کا انسانوں سے زیادہ خیال رکھا جاتا ہے اور اب تو پوری دنیا میں یوم خواتین منایا جا رہا ہے۔ اس موقع پر آزاد کشمیر سے باز آبادکاری پالیسی کے تحت مقبوضہ کشمیر آئی ہوئی خواتین بھی حکومت سے فریاد کر رہی ہیں کہ ان پر رحم کھا کر انسانی بنیادوں پر انہیں واپس آزاد کشمیر جانے کے لئے روٹ پرمٹ فراہم کیا جائے۔
2010 میں حکومت نے 1990 کی دہائی یا پھر اس کے بعد عسکری صفوں میں شامل ہونے یا پھر عسکری تربیت لینے، آزاد کشمیر جانے والے افراد کی باز آبادکاری کے لئے ایک پالیسی کا اعلان کیا تھا اور اس دوران ان سے کہا گیا تھا کہ وہ گھروں کو واپس آئیں۔ اگرچہ اس دوران سرنڈر اور بازآبادکاری پالیسی کے تحت 2003 سے 22 مئی 2016 تک 489 نوجوان اپنی بیوی بچوں سمیت نیپال اور دیگر راستوں سے واپس مقبوضہ کشمیر لوٹ آئے تاہم باز آبادکاری کی پالیسی دھوکہ ثابت ہوئی اور یہاں آکر وہ دانے دانے کے محتاج ہوگئے آزاد کشمیر کی رہنے والی شرین بیگم جو اس وقت اپنے بچوں اور شوہر کے ساتھ سوپور میں رہتی ہے اور ان سینکڑوں خواتین کے لئے آواز بلند کر رہی ہیں جو 2010 میں باز آبادکاری پالیسی کے تحت پاکستان یا آزاد کشمیر سے یہاں لائی گئی تھیں وہ کہتی ہیں کہ آزاد کشمیر میں ان کے اپنے اس عرصے میں فوت ہوگئے لیکن ہم فریاد کریں تو کس سے کریں کہ ہمیں اپنے وطن جانے کی اجازت دی جائے شرین بیگم کی طرح ہی مقبوضہ کشمیر کے کرناہ علاقے میں بیاہ کر لائی گئی پوش مالی بیگم کے علاوہ گزریال کی فاطمہ بیگم، کپوارہ بیاہ کر لائی گئی کوثر ابیگم، کے علاوہ رخسانہ بیگم یہ ایسی خواتین ہیں، جو اپنوں کی یاد میں دن رات آنسو بہاتی ہیں، ایسی خواتین کی یہی فریاد ہے کہ انہیں ویزا دیا جائے تاکہ وہ آزاد کشمیر میں اپنے ماں باپ اور دیگر رشتہ داروں کا ایک بار دیدار کرسکیں ان متاثرہ خواتین کا کہنا ہے کہ ہم زندہ لاشیں بن گئی ہیں اور اس طرح پانچ سو سے زیادہ خواتین جو آزاد کشمیر سے مقبوضہ کشمیر آئی ہیں، ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہو کر آزاد کشمیر میں اپنے ماں پاپ اور دیگر گھر والوں کے تصور میں کھوئی رہتی ہیں شاہدہ بانو نامی ایک خاتون نے اپنی زندگی کا خاتمہ کر دیا کیونکہ یہاں اس کی نہ مالی حالت ٹھیک تھی اور نہ ہی کٹھ پتلی حکومت اسے آزاد کشمیر جانے کے لئے روٹ پرمٹ فراہم کر رہی تھی۔
کراچی کی نائدہ یوسف نامی خاتون 2014میں نیپال کے راستے اپنے چار بچوں اور خاوند کے ساتھ شالیمار سرینگر پہنچی لیکن اب ان کا سکون ہی ان سے چھن گیا ہے 2010میں جب یہاں کی حکومت نے باز آبادکاری پالیسی شروع کی تو سینکڑوں کشمیری نوجوان پاکستان کے کونے کونے سے اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ نیپال اور دیگر راستوں سے وادی آئے اور ان افراد کے ساتھ 5سو خواتین بھی یہاں پہنچیں لیکن یہاں انہیں مصیبتوں اور پریشانوں کے سوا کچھ نہیں ملا اور نہ ہی 10برسوں میں ان کی باز آباد کاری ہو سکی۔بھارت اپنے مکرو فریب اور دہشت گردانہ کاروائیوں کی بدولت اس وقت دنیا میں سرفہرست ہے بھارت میں جرائم کے تازہ ترین سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ملک میں یومیہ بنیادوں پر قتل کے اوسطا 80، جنسی زیادتی کے 91 اور اغوا کے 289واقعات پیش آتے ہیں بھارت میں ہر 15منٹ میں ایک خاتون کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے۔
بھارت میں خواتین کے خلاف تشدد، زیادتی، تیزاب سے حملے اور ہراساں کرنے سمیت دیگر صنفی تفریق کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہو رہاجبکہ 2017 میں 2016 سے زیادہ جرائم ریکارڈ کیے گئے تھے بھارت میں ہر 6 منٹ کے اندر کوئی نہ کوئی خاتون بدسلوکی، ہراسانی اور تشدد کا شکار بنتی ہے جب کہ ہر 5 منٹ بعد کسی نہ کسی خاتون کو اپنا شوہر، سسر یا دیگر اہل خانہ نشانہ بناتے ہیں۔ اسی طرح ہر ڈھائی دن بعد کسی نہ کسی خاتون پر تیزاب سے حملہ کردیا جاتا ہے جب کہ ہر 2 گھنٹے بعد کسی نہ کسی خاتون کے ساتھ زیادتی یا اجتماعی زیادتی کی کوشش کی جاتی ہے تشدد، بدسلوکی، ہراسانی اور زیادتی کا نشانہ بننے والی خواتین میں 6 سال کی بچیوں سمیت 60 سال تک کی خواتین شامل ہیں اور اس وقت مقبوضہکشمیر انسانی ظلم وجبر کی بدترین مثال ہے اوریہاں اب تک دس ہزار سے زیادہ خواتین جنسی جرائم کا شکار ہوئی ہیں کنن پوش پورہ میں 23 فروری 1991 کوبھارتی فوج نے وادی کے ضلع کپواڑہ کے کنن پوش پورہ کے جڑواں گاوں میں تلاشی کے دوران فوجیوں نے تقریبا100خواتین کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی اور 20 اگست 1991 کو بھی فوجیوں نے بڑے پیمانے پر خواتین کی عصمت دری کی تھی اسی طرح ضلع اننت ناگ کی تحصیل بیج بہاڑہ میں 1993کوبیج بہاڑہ کے قتل عام سے قبل اجتماعی عصمت دری کا ایک بہت بڑا واقعہ پیش آیابھارتی درندوں سے اس وقت مقبوضہ کشمیر میں چھوٹی چھوٹی معصوم بچیوں سے لیکر بوڑھی خواتین تک محفوظ نہیں ہیں دنیا میں خواتین کے حقوق پر باتیں کرنے والی این جی اوزمقبوضہ کشمیر میں ہٹلر مودی کی تشدد پسندانہ پالیسیوں کے خلاف بھی آواز اٹھائیں تاکہ جنت نظیر خطہ امن کا گہوارہ بن سکے۔