فوج کا کرپشن سے متعلق الزام مضحکہ خیز ہے، آنگ سان سوچی کے وکیل

General Min Aung Hlaing

General Min Aung Hlaing

میانمار (اصل میڈیا ڈیسک) میانمار کی نظربند رہنما آنگ سان سوچی کے وکیل نے فوجی جنتا کی طرف سے ان پر کرپشن کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔

جمعرات کو فوجی حکومت کے ایک ترجمان نے آنگ سان سوچی پر بدعنوانی میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا۔ انہوں نے کہا کہ زیر حراست سیاسی شخصیات میں ایک وزیر اعلیٰ نے حکام کو بتایا ہے کہ انہوں نے آنگ سان سوچی کو چھ لاکھ ڈالر اور دس کلوگرام سونا دیے تھے۔

جمعے کو آنگ سان سوچی کے وکیل خِن مااُنگ زا نے ایک بیان میں اس الزام کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے یکسر مسترد کیا۔

آنگ سان سوچی کے وکیل کا شمار میانمار میں انسانی حقوق کے سرکردہ وکلا میں ہوتا ہے۔ ماضی میں روہنگیا سے متعلق حکومتی پالیسیوں پر ان کے آنگ سان سوچی کے ساتھ اختلافات بھی رہے ہیں۔

ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ آنگ سان سوچی میں خامیاں ہو سکتی ہیں لیکن وہ کبھی بھی رشوت اور کرپشن میں ملوث نہیں ہو سکتیں۔

میانمار میں فوج نے پہلی فروری کو اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد منتخب نمائندوں کو گرفتار کرکے ان پر مقدمات قائم کرنا شروع کردیے۔

اس دوران آنگ سان سوچی پر ملک میں غیرقانونی طور پر مواصلاتی آلات درآمد کرنے، الیکشن مہم کے دوران کورونا کی پابندیاں توڑنے اور لوگوں کو بے چینی پر اکسانے کے الزامات عائد کیے جا چکے ہیں۔

ان مقدمات کی اگلی سماعت پندرہ مارچ کے لیے طے ہے۔ تاہم فوجی حکام نے اب تک ان کے وکیل کو ان سے نجی ملاقات میں قانونی صلاح مشورے کی اجازت نہیں دی۔

آنگ سان سوچی کے وکیل کا کہنا ہے کہ فوجی حکام کے بنائے گئے ان کیسز میں کوئی دم نہیں، لیکن انہیں اس بات پر سخت تشویش ہے کہ ان کی موکلہ کو اپنے قانونی دفاع اور منصفانہ ٹرائل کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ انہیں خدشہ ہے کہ حکومت سیاسی قیادت کو نظربند رکھنے کے لیے مزید جھوٹے کیسز اور الزامات لا سکتی ہے۔

میانمار میں اقتدار ہاتھ میں لینے والے جرنیلوں کا کہنا ہے کہ انہیں یہ اقدام ملک کی بہتری کے لیے لینا پڑا۔ فوجی جنتا کے مطابق اس کی بنیادی وجہ پچھلے سال نومبر کے عام انتخابات میں آنگ سان سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کی طرف سے مبینہ دھاندلی تھی۔

یہ انتخابات این ایل ڈی نے بھاری اکثریت سے جیتے تھے جس کے بعد فوج میں خدشات تھے کہ نئی پارلیمان اقتدار میں فوج کا کنٹرول کم کرنے کے لیے قانون سازی کر سکتی ہے۔

میانمار میں فوج کی طرف سے منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے خلاف پچھلے پانچ ہفتوں سے مظاہرے جاری ہیں۔

حکومتی کریک ڈاؤن اور پر تشدد واقعات میں کم از کم 60 لوگوں کے مارے جانے کی اطلاعات ہیں۔