جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمنی کی دو ریاستوں میں ہونے والے انتخابات میں چانسلر انگیلا میرکل کی قدامت پسند جماعت کو شکست کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ رواں سال کو انتخابات کا ایک ’غیر معمولی‘ سال قرار دیا جا رہا ہے۔
کرسچن ڈیموکریٹ لیڈر انگیلا میرکل 15 سال سے زیادہ عرصے سے جرمنی کی چانسلر چلی آ رہی ہیں۔ اس سال ستمبر میں وفاقی پارلیمانی انتخابات کے بعد غالباً وہ بطور چانسلر اپنے فرائض سے سبکدوش ہو جائیں گی۔ رواں برس کے اختتام تک جرمنی کا سیاسی منظر نامہ کیا رُخ اختیار کرے گا اس بارے میں کچھ بھی حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا تاہم ایک امر واضح ہے، وہ یہ کہ جرمنی کی قدامت پسند سیاسی قوتوں سی ڈی یو اور سی ایس یو کی ساکھ کمزور ہوئی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ 2021 ء میں جرمنی میں چھ ریاستوں کے علاوہ وفاقی انتخابات بھی منعقد ہونا ہیں۔
جرمنی کی دو وفاقی ریاستوں باڈن ورٹمبرگ اور رائن لینڈ – پلاٹینیٹ میں آج ریاستی انتخابات کے لیے صبح سویرے سے پولنگ اسٹیشنز کھول دیے گئے۔ رائے دہی کا حق رکھنے والے 11 ملین ووٹروز میں سے نصف نے میل کے ذریعے ووٹ ڈالا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ کورونا کی وبا ہے۔
اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کر دی جائے۔ اس پارٹی کا اصرار ہے کہ ایسے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
2021ء کو انتخابات کا ایک ‘غیر معمولی‘ سال قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ اس سال چھ ریاستوں کے علاوہ وفاقی انتخابات بھی منعقد ہونا ہیں۔ آج مذکورہ دو ریاستوں میں منعقد ہونے والے انتخابات اس لیے بھی نہایت اہم تصور کیے جا رہے ہیں کہ ان کے نتائج پر غالباً اس بات کا تعین ہو سکے گا کہ 2021 ء کے آخر میں انگیلا میرکل کے چانسلر شپ سے سبکدوش ہونے کے بعد ان کا جانشین کون ہوگا۔
رائن لینڈ – پلاٹینیٹ میں آج ریاستی انتخابات کے لیے ووٹر ووٹ ڈالتے ہوئے۔
حالیہ جائزوں کے نتائج سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ جرمن صوبے باڈن ورٹمبرگ میں کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی وہاں حکمران گرین پارٹی سے کہیں پیچھے ہے اور سی ڈی یو متعدد وجوہات کی بنا پر اس صوبے میں اکثریتی ووٹ حاصل نہیں کر پائے گی۔ باڈن ورٹمبرگ میں گرین پارٹی سے تعلق رکھنے والے آزمودہ کار اور کہنہ مشق سیاستدان ونفریڈ کرچمن تیسری بار وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے الیکشن لڑ رہے ہیں اور ان کی کامیابی کے امکانات روشن ہیں۔ یہ 2011ء میں باڈن ورٹمبرگ کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تھے۔ انہیں کسی جرمن صوبے کے پہلے ماحول دوست گرین لیڈر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
اُدھر صوبے رائن لینڈ – پلاٹینیٹ میں ‘ایس پی ڈی‘ کے بائیں بازو کے سوشل ڈیموکریٹس مضبوط ہوتے دکھائی دے رہے ہیں اور اس صوبے کی وزیر اعلیٰ مالو ڈریئر کی دوبارہ کامیابی عین ممکن ہے۔ یہ پہلے ہی سے اس صوبے کی تین جماعتوں پر مشتمل اتحادی حکومت کی سربراہی کر رہی ہیں۔
حکمران جماعت کرسچن ڈیمو کریٹک یونین یا سی ڈی یو کے لیے یہ سال بڑے امتحان کا سال ثابت ہو سکتا ہے۔ چانسلر انگیلا میرکل کی پارٹی سی ڈی یو کو پہلے ہی کورونا بحران اور ماسک کے حوالے سے ایک اسکینڈل کے سبب کافی نقصان پہنچا ہے۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) اور صوبے باویریا میں اس کی ہم خیال پارٹی کرسچن سوشل یونین (سی ایس یو) کورونا ماسک افیئر کی وجہ سے مزید مسائل کا شکار اُس وقت ہوئی جب گزشتہ جمعرات کو سی ڈی یو کے ایک تیسرے قانون ساز کو بھی اس معاملے کے تناظر میں مستعفی ہونے کا اعلان کرنا پڑ گیا۔ ایک ہفتے میں یہ اس جماعت کے تیسرے رکن پارلیمان کا استعفیٰ تھا۔