امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے روسی ہم منصب ولادی میر پوتین کو ’’قاتل‘‘ قرار دیتے ہوئے یہ بات زور دے کر کہی کہ وہ امریکی انتخابات میں مداخلت کی قیمت ادا کریں گے۔
پروگرام اینکر کے سوال کیا وہ روسی صدر کو ’’قاتل‘‘ سمجھتے ہیں، جو بائیڈن نے جواب دیا ’’جی ہاں! میرا بھی یہی خیال ہے۔‘‘ اس پر روسی پارلیمنٹ ڈوما کے سربراہ نے فوری ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’’پوتین پر حملے کا مطلب روس پر حملہ ہے۔‘‘
جو بائیڈن نے کہا کہ ولادی میر پوتین ڈونلڈ ٹرمپ کو فائدہ پہنچانے کی خاطر امریکی انتخابات پر اثر انداز ہونے والی کوششوں کا خمیازہ بھگتیں گے۔ یہ جلد ہی ہو گا۔
بدھ کے روز ’’اے بی سی‘‘ نیوز ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والی انٹرویو میں جو بائیڈن نے کہا کہ وہ [پوتین] ’’جلد اس کی قیمت ادا کریں گے‘‘خمیازہ سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے بائیڈن کا کہنا تھا کہ ’’وہ جلد ہی خمیازہ دیکھ لیں گے۔‘‘
روسی صدر کے مقرب خاص اور ڈوما کے چیئرمین ویاچیسلیو ویلوڈن نے ’’ٹیلی گرام‘‘ نامی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر امریکی صدر کے تبصرے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ ہسٹریائی کیفیت جواب نہ بن پڑنے کا نتیجہ ہے۔ پوتین ہمارے صدر ہیں اور ان کی ذات پر کیا جانے والا کوئی بھی حملہ ہمارے ملک پر حملہ تصور کیا جائے گا۔‘‘
ادھر امریکا کی وزارت قانون اور داخلہ نے اپنی ایک حالیہ انٹیلی جنس رپورٹ الزام عاید کیا کہ روس اور ایران نے گذشتہ برس 2020 میں ہونے والے امریکی انتخابات کے بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنایا تاہم وہ اس کے حتمی نتائج پر اثر انداز ہونے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ امریکی ذرائع کا کہنا ہے کہ واشنگٹن حالیہ انتخابات میں مبینہ مداخلت کی پاداش میں آئندہ ہفتے روس کے خلاف پابندیاں عاید کرے گا۔
دونوں امریکی وزارتوں [داخلہ اور قانون] کی مشترکہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے ’’کہ روس اور ایران کے وسیع البنیاد حملوں میں امریکی انتخابی نظام کے بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنایا گیا جس سے انتخابی ذمہ داریاں ادا کرنے والے سکیورٹی نیٹ ورکس متاثر ہوئے۔‘‘
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ ’’اس مداخلت کا ووٹروں کی رائے پر کوئی عملی اثر نہیں ہوا اور نہ ہی اس مداخلت کا ووٹوں کی گنتی اور بروقت نتائج کے اعلان کی صحت پر کوئی اثر ہو سکا۔
رپورٹ کے مطابق روس، ایران اور چین کی حکومتوں کے ماتحت اداروں نے مادی طور پر امریکی سیاست، امیدواران اور ان کی انتخابی مہم کی سیکیورٹی اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ ’’ان گروپوں نے امریکی سیاسی نظام سے متعلق ایسا معلومات جمع کر رکھی تھیں کہ جنہیں ووٹنگ پراسس پر اثر انداز ہونے کے لیے استعمال کیا جانا تھا لیکن ایسا کرنے سے گریز کیا گیا۔
جو بائیڈن نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنے روسی ہم منصب کو ٹیلی فون کیا تو اس وقت نیوز کانفرنس کے اختتام پر ایک صاحفی نے بلند آواز میں جو بائیڈن سے سوال کیا کہ روسی صدر سے ان کی فون پر کیا بات ہوئی تو امریکی صدر نے از راہ مذاق صحافی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’پوتین سے ان کی صحافیوں سے متعلق بات ہوئی ہے۔‘‘ اور ’’صدر پوتین نے انہیں نیک خواہشات کا پیغام بھیجا ہے۔‘‘ جس کے بعد ہال بلند آہنگ قہقہوں سے گونج اٹھا۔
اس امر کی جانب اشارہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ بائیڈن کا 20 جنوری کو صدارت سنبھالنے کے بعد اپنے روسی ہم منصب سے ٹیلی فونک رابطہ ہوا۔ صدر پوتین نے ٹیلی فونک رابطے میں اس رائے کا اظہار کیا کہ روس اور امریکا کے درمیان تعلقات نارملائزیشن دونوں ملکوں سمیت ساری دنیا کے مفاد میں ہو گی۔‘‘
اس وقت کریملن نے بتایا کہ دونوں ملکوں نے اسٹرٹیجک اسلحہ میں تخفیف سے متعلق معاہدے کی دو سفارتی دستاویزات کے تبادلے پر اطمینان کا اظہار کیا تھا۔