امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) میکسیکو سے امریکا کی سرحدوں میں داخل ہونے والے تنہا بچوں، جن میں چند کی عمریں چھ سال تک ہیں، کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے۔ ہوم لینڈ سیکیورٹی نے اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
امریکا کو اس وقت اپنی جنوب مغربی سرحد پر گزشتہ دو دہائیوں کے تارکین وطن کے سب سے بڑے ریلے کا سامنا ہے۔ اس بارے میں منگل کے روز امریکی ہوم لینڈ سکیورٹی حکام نے ایک بیان میں کہا کہ امریکا کے بارڈر کنٹرول حکام کو میکسیکو سے امریکی سرحدی علاقے میں داخل ہونے والے بچوں کی بہت بڑی تعداد کو سنبھالنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ بچے تنہا سرحد پار کر کے امریکا میں داخلے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ہوم لینڈ سکیورٹی کے سکریٹری الیخاندرو مائیورکاس نے ایک بیان میں کہا،” گزشتہ ایک سال کے دوران میکسیکو اور دیگر ہمسائے ممالک کی طرف سے امریکا کی سرحدی گزرگاہوں کو عبور کرنے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ تنہا بارڈر کراس کرنے والے زیادہ تر بالغوں اور خاندانوں کو واپس لوٹایا جا رہا ہے۔‘‘
میکسیکو، گوئٹے مالا، ہنڈوراس اور ال سلواڈور کے عوام کئی دہائیوں سے غربت، تشدد، بدعنوانی کے علاوہ ناگہانی آفات کے شکار رہے ہیں۔ اس کے سبب لاکھوں افراد اپنی بقا کی تلاش میں امریکا کا رُخ کر رہے ہیں۔ لاطینی امریکی ممالک کے حالات بدستور خراب ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ہوم لینڈ سکیورٹی کے سکریٹری الیخاندرو مائیورکاس کا کہنا ہے کہ دو حالیہ سمندری طوفانوں نے وہاں حالات میں مزید خرابی پیدا کی ہے جبکہ کورونا کی وبا نے سرحدی صورتحال کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا،” ہمیں گزشتہ 20 برسوں کے مقابلے میں اب جنوب مغربی سرحد پر زیادہ سے زیادہ افراد کی آمد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘‘
وائٹ ہاؤس کے کسٹم اور بارڈر پروٹیکشن کے شعبے نے پچھلے ہفتے کہا تھا کہ گزشتہ ماہ یعنی فروری میں بارڈر ایجنٹوں نے ایک لاکھ چار ہزار اکتالیس تارکین وطن کو ملک سے نکال دیا تھا۔ یہ تعداد گزشتہ دو برسوں کے دوران ماہانہ ملک بدری کی کُل تعداد کے اعتبار سے سب سے زیادہ تھی۔
ہوم لینڈ سکیورٹی کے سکریٹری الیخاندرو مائیورکاس نے بتایا کہ زیادہ تر واپس لوٹا دیے جانے والوں میں ‘سنگل‘ نابالغ تارکین وطن شامل ہیں تاہم تنہا سرحد پار کرنے والے چھ سال عمر کے بچوں کو واپس نہیں بھیجا جا رہا۔ مائیورکاس نے بتایا کہ امریکی حکومت ایسے بچوں کو فوری طور پر محکمہ صحت اور انسانی خدمات کے شعبوں کی نگرانی میں کام کرنے والے پروسیسنگ سینٹرز منتقل کر رہی ہے، جہاں ان کے لیے اضافی پناہ گاہوں کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔
منگل کو امریکی نیوز چینل اے بی سی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا،” ہم اگلے ماہ تک ایسے بچوں، جن کے پاس کوئی ٹھکانہ نہیں ہے، کو کافی تعداد میں بستر فراہم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ تاہم انہیں مناسب دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔‘‘
کانگریس میں ریپبلکنز نے صدر جو بائیڈن پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے سابق صدر ٹرمپ کی کچھ سخت گیر پالیسیوں میں تبدیلی کا وعدہ کر کے ملکی سرحد پر تارکین وطن کا سیلاب رواں کر دیا ہے۔ پیر کے روز ال پاسو بارڈر پر قائم سہولیات فراہم کرنے والے ایک مرکز میں بیان دیتے ہوئے امریکی ایوان نمائندگان کے ایک ریپبلکن لیڈر کیون مک کارتھی کا کہنا تھا،”یہ غیر ضروری تھا۔ یہ بحران ہماری نئی انتظامیہ کی صدارتی پالیسیوں کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔‘‘
اس سلسلے میں جو بائیڈن پر بڑھتے ہوئے سیاسی دباؤ کا اندازہ منگل کو امریکی صدر اور ڈیمو کریٹ لیڈر جو بائیڈن کی طرف سے دیے گئے اس بیان سے بھی ہوتا ہے، جس میں انہوں نے کہا،”یہاں مت آئیں، اپنے قصبے، شہر یا برادری کو مت چھوڑیں۔‘‘