میانمار (اصل میڈیا ڈیسک) میانمار کی فوجی حکومت کی طرف سے احتجاجی مظاہروں کو کچلنے کا سلسلہ جاری ہے۔ دوسری جانب جمہوری حکومت کی حمایت میں عوامی احتجاج کا سلسلہ بھی رکنے کا نام نہیں لے رہا۔
رواں برس پہلی فروری کو منتخب جمہوری حکومت کو اقتدار سے باہر کر کے میانمار کی فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس قبضے کے خلاف اور جمہوری حکومت کی حمایت میں عوام کی احتجاجی ریلیوں اور جلوسوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ سکیورٹی دستوں نے مظاہرین پر لاٹھی چارج کے علاوہ آنسو گیس اور سیدھی فائرنگ کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔
پہلی فروری کے بعد سے اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک کی سیاسی صورت حال تبدیل ہو چکی ہے۔ پرامن ماحول اور رواں دواں زندگی کی جگہ احتجاج، جلسے، جلوس، فوجی حکومت کے خلاف نعرے، لاٹھی چارج، آنسو گیس اور گولیاں چلنے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔
ہفتہ بیس مارچ کو بھی ہزاروں افراد فوجی حکومت کے خلاف گھروں سے باہر نکلے۔ میانمار کے مختلف شہروں میں جمہوری حکومت کی بحالی کے حق میں آوازیں بلند کی گئیں۔ مظاہرین مقبول لیڈر آنگ سان سوچی کی رہائی کا مطالبہ بھی کرتے رہے۔ بڑے بڑے احتجاجی جلوس خاص طور پر سے ینگون اور منڈالے میں نکالے گئے۔
میانمار میں فوج اور پولیس کی فائرنگ سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد دو سو پینتیس ہو گئی ہے۔ ینگون میں جمعہ انیس مارچ کو چلائی گئی گولیوں سے ایک احتجاجی کی موت کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ ہلاکتوں کی تعداد کا ریکارڈ رکھنے والی امدادی تنظیم اے اے پی پی (AAPP) نے یہ بھی بتایا کہ دو ہزار تین سو تیس کے قریب افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
اس میں ان افراد کی تعداد بھی شامل ہے جنہیں عارضی طور پر گرفتار کیا گیا ہے۔ سب سے بڑے شہر ینگون میں ایک احتجاجی نے سکیورٹی اہلکاروں کے حوالے سے کہا کہ ان کا تعلق پولیس یا فوج سے نہیں بلکہ یہ دہشت گرد ہیں۔
فوجی حکومت نے ملک کے دوسرے بڑے شہر منڈالے میں ہڑتال کرنے والے ریلوے ملازمین کو انتباہ کیا تھا کہ اگر وہ واپس کام پر نہ آئے تو ان کو سرکاری گھروں سے بیدخل کر دیا جائے گا۔ مہلت ختم ہونے پو شہر کے لوگ ٹرک، پک اپس اور وین لے کر ریلوے کالونی پہنچے اور بیدخل کیے جانے والے ہڑتالی مظاہرین کے گھروں سے سامان لاد کر انہیں اپنے ساتھ لے گئے۔ ریلوے کے سرکاری ملازمین گزشتہ ماہ سے فوجی حکومت کے خلاف ہڑتال جاری رکھے ہوئے ہیں۔