اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ افغان مذاکرات کے سلسلے میں رواں ماہ کے اواخر میں تاجکستان میں ہونے والی ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شریک ہوں گے۔
بھارتی ذرائع ابلاغ میں حکومتی ذرائع کے حوالے سے یہ خبر شہ سرخیوں میں ہے کہ اس ماہ کی 30 تاریخ کو تاجکستان میں ہونے والے افغان مذاکرات میں شرکت کے لیے بھارتی وزير خارجہ ایس جے شنکر بھی پہنچ رہے ہیں اور اس بات کا غالب امکان ہے کہ اس موقع پر وہ اپنے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی بھی ملاقات کر سکتے ہیں۔
پاکستانی وزير خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں ہونی والی ’ہارٹ آف ایشیا کانفرنس‘ میں شرکت کریں گے۔ یہ کانفرنس افغانستان میں قیام امن اور ہندو کش کی اس ریاست کے مستقبل کے حوالے سے ہو رہی ہے۔ تاہم بھارتی حکام کے مطابق اس موقع پر بھارت اور پاکستان کے رہنماؤں کے مابین بھی ملاقات کی توقع کی جا رہی ہے۔
دو روز قبل پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ سے منسوب ایک بیان میں کہا گيا تھا کہ علاقے میں قیام امن کے لیے مذاکرات کے آغاز کی خاطر ضروری ہے کہ بھارت سب سے پہلے کشمیر میں ساز گار ماحول پیدا کرے۔ بھارت کے ایک معروف انگریزی اخبار نے لکھا ہے کہ ممکنہ دوطرفہ ملاقات کے لیے بھارت نے سفارتی اقدامات شروع کر دیے ہیں اور پاکستان نے بھی اس میں قدرے دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے۔
ترکی نے سن 2011 میں افغانستان میں استحکام اور امن کی بحالی کے لیے سکیورٹی اور تعاون میں اضافے کی خاطر ’ہارٹ آف ایشیا کانفرنس‘ شروع کی تھی اور اسی سلسلے میں اس بار یہ کانفرنس تاجکستان میں ہو رہی ہے۔
گزشتہ چند برسوں سے کشمیر سمیت کئی امور کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کشیدہ رہے ہیں اور دونوں کے درمیان کوئی رسمی یا غیر رسمی بات چيت بھی نہیں ہوئی۔ ستمبر 2019ء میں نیو یارک میں سارک ممالک کے وزرائے خارجہ کی جب میٹنگ ہوئی تھی، تو اس وقت بھی قریشی اور جے شنکر کے درمیان ملاقات کا موقع تھا۔
تاہم اس وقت دوطرفہ روابط اتنے کشیدہ تھے کہ دونوں ہمسایہ ممالک نے ہی ایک دوسرے کا بائیکاٹ کیا تھا۔ بھارتی وزير خارجہ جے شنکر نے جب اس میٹنگ سے خطاب شروع کیا تو اس سے قبل ہی قریشی اجلاس سے اٹھ کر باہر چلے گئے تھے اور جے شنکر جب اپنا خطاب ختم کر کے باہر چلے گئے، تو قریشی دوبارہ میٹنگ میں واپس آئے تھے۔
لیکن گزشتہ کچھ روز کے دوران حالات تیزی سے تبدیل ہوتے دکھائی دیے ہیں۔ پہلے کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی معاہدے پر عمل کرنے کی بات ہوئی۔ بھارت نے عمران خان کے جہاز کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی اور پھر پاکستان کی ایک نیزہ باز ٹیم ایک بین الاقوامی مقابلے میں شرکت کے لیے بھارت آئی تھی، اس طرح دونوں حریف ممالک کے مابین مثبت اشاروں کا سلسلہ شروع ہوا۔
پاکستانی وزير اعظم عمران خان نے بھی حال ہی میں ایک بیان میں کہا تھا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان بات چيت اور تعلقات بہتر کرنے کے سلسلے میں ’پہلا قدم بھارت کو اٹھانا ہوگا۔ جب تک وہ (بھارت) ایسا نہیں کرتے، ہم اس سمت میں بہت کچھ نہیں کر سکتے۔‘‘
بھارتی ذرائع ابلاغ میں اس طرح کی خبریں آتی رہی ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان حالات کو معمول پر لانے کے لیے بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دووال گزشتہ تین ماہ سے بھی زیادہ عرصے سے اپنے پاکستانی ہم منصب کے ساتھ مل کر کافی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق یہ پیش رفت بھی انہی کوششوں کا نتیجہ ہے اور ’مستقبل میں بھی ایسے ہی اقدامات کیے جانے کا عزم ظاہر کیا گيا ہے‘۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان گزشتہ تقریباﹰ دو سال سے بھی زیادہ عرصے سے تعلقات بہت کشیدہ ہیں اور ہر طرح کی باضابطہ بات چيت تعطل کا شکار رہی ہے۔ سن 2019 میں پلوامہ حملے کے بعد بھارتی فضائیہ نے پاکستان میں بالا کوٹ کے مقام پر فضائی حملہ کیا تھا۔
اس کے جواب میں پاکستان نے بھی بھارت پر فضائی حملہ کیا اور جوابی کارروائی میں بھارت کا ایک جنگی طیارہ اور ایک ہیلی کاپٹر تباہ ہو گیا تھا۔ اس جنگی طیارے کا پائلٹ گرفتار کر لیا گیا تھا، جسے بعد میں پاکستان نے خیر سگالی کے جذبے کے تحت رہا کر دیا تھا۔
اس کے بعد بھارت نے اپنے زیر انتظام جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر کے کشمیر میں کرفیو جیسی بندشیں عائد کر دی تھیں، جس کے بعد دونوں ممالک کے باہمی تعلقات پیچیدہ تر ہو گئے تھے۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اس دوران تمام عالمی فورمز پر کشمیر کا مسئلہ اٹھاتے رہے ہیں۔