جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ملک میں جزوی لاک ڈاؤن میں تو سیع کر کے اسے اپریل تک نافذ رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔ یہ بات ایک حکومتی دستاویز کے حوالے سے خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اتوار کو بتائی۔
اس مسودے پر چانسلر میرکل کل پیر کو تمام 16 وفاقی ریاستوں کے لیڈروں کے ساتھ صلاح و مشورہ کریں گی۔ جرمنی میں فی الوقت لاک ڈاؤن مارچ کے آخر تک کے لیے ہے تاہم گزشہ سات روز کے دوران یہاں فی ایک لاکھ کی آبادی میں کورونا وائرس کی نئی انفیکشنز کی تعداد ایک سو تین ریکارڈ کی گئی۔ صحت عامہ کے جرمن اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں گزشتہ روز کورونا کی نئی انفیکشنز کی تعداد 13 ہزار 7 سو 33 رہی جبکہ کووڈ انیس کے مزید 99 مریض انتقال کر گئے۔
ان حالات کے پیش نظر جرمنی کے دوسرے سب سے بڑے شہر ہیمبرگ میں گزشتہ جمعے سے دوبارہ مکمل لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا ہے۔ ہیمبرگ میں مسلسل چار روز تک یومیہ 100 سے زائد نئے کورونا کیسز رجسٹر ہونے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا۔
ادھرجرمنی کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے شہر کولون کی انتظامیہ نے بھی محدود پابندیاں عائد کر دی ہیں کیونکہ کولون میں بھی روزانہ ریکارڈ ہونے والے نئے کورونا کیسز کی تعداد 100 سے متجاوز ہو چکی ہے۔ جرمنی میں گزشتہ برس دسمبر سے چلے آ رہے سخت لاک ڈاؤن میں 7 مارچ سے واضح نرمی کی گئی تھی۔ جرمن حکام نے جو حکمت عملی طے کی، اس کے مطابق قومی اور مقامی دونوں سطحوں پر لاک ڈاؤن میں سختی یا نرمی کا دار و مدار مسلسل سات روز تک فی ایک لاکھ کی آبادی میں کورونا وائرس کی نئی انفیکشنز کی تعداد فیصلہ کن ہوتی ہے۔
جرمنی کو اب کورونا وائرس کی وبا کی تیسری لہر کے خدشات کا بھی سامنا ہے اور یورپی اقتصادی مرکز کی حیثیت رکھنے والے اس ملک میں ویکسینیشن مہم کی سست روی عوام میں بے چینی اور عدم اعتماد کا باعث بن رہی ہے۔ ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے جرمنی میں مقامی حکومتوں کی نمائندہ دو تنظیموں نے اتوار کے روز کورونا لاک ڈاؤن ضوابط کے ضمن میں زیادہ لچکدار بینچ مارک کے اطلاق کا مطالبہ کیا۔
جرمن شہروں کے انتظامی اداروں کی ایسوسی ایشن کے صدر بُرکہارڈ یُنگ نے جرمن میڈیا کے فُنکے گروپ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”مقامی سطح پرکورونا کی وبا سے متعلق وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی پالیسیوں کے بارے میں بڑے پیمانے پر عدم اطمینان پایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ حکومت عوامی حمایت کھوتی جا رہی ہے اور شہروں کے میئر بھی اس کی لپیٹ میں ہیں۔‘‘
بُرکہارڈ یُنگ نے مزید کہا، ”ہمیں ایک نیا کورونا انڈیکیٹر متعارف کرانا چاہیے، جو ویکسینیشن کی شرح، انتہائی نگہداشت کے یونٹوں پر طبی بوجھ اور اموات کے معاملات پر بھی نظر ڈالے۔‘‘
اسی طرح کی سوچ کا اظہار جرمنی کی ایسو سی ایشن آف ٹاؤنز اینڈ میونسپلٹیز نے بھی کیا ہے، جس کے چیف ایگزیکٹیو گیرڈ لانڈزبرگ نے اخبار ‘دی ویلٹ ام زونٹاگ‘ کو بتایا کہ کورونا کے خلاف اقدامات کا اطلاق ‘کورونا ہاٹ اسپاٹس‘ کی واضح طور پر شناخت کے ساتھ کیا جانا چاہیے۔