جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمنی میں کورونا کیسز پھر بڑھ رہے ہیں، جس کی وجہ سے حکام پابندیوں میں نرمی کے بجائے انہیں مزید جاری رکھنے پر غور کر رہے ہیں۔
اس سلسلے میں چانسلر انگیلا میرکل پیر کو وفاقی ریاستوں کے منتخب سربراہان کے ساتھ مشاورت کر رہی ہیں۔ کئی جرمن ریاستوں میں سیاستدانوں پر دباؤ ہے کہ لوگوں کی نقل و حرکت اور میل جول پر عائد پابندیوں میں نرمی لائے جائے۔
تاہم تازہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں انفیکشن کا گراف متعین کردہ اہداف سے کہیں اوپر جا رہا ہے۔ ماہرین کا موقف ہے کہ ان حالات میں نرمی کرنا حالات کو اپنے ہاتھ سے بگاڑنے کے مترادف ہو گا۔
جرمنی کے کئی شہروں میں لاک ڈاؤن کے خلاف مظاہرے بھی ہوتے رہے ہیں۔ موسم سرما کے سخت لاک ڈاؤن کے بعد لوگوں کو امید تھی کہ اپریل میں موسم بہار کے آتے اور ایسٹر کی چھٹیوں کے دوران وہ پھر سے باہر نکل سکیں گے۔
لیکن جرمن میڈیا کے مطابق اس کے امکانات کم دکھائی دیتے ہیں۔
جرمنی میں تین ہفتے پہلے تک انفیکشن کی شرح بظاہر قابو میں آتی نظر آ رہی تھی جس کے باعث حکام نے کہیں کہیں تھوڑی بہت نرمی متعارف کرا دی تھی۔
جرمنی میں ہر ایک لاکھ افراد میں اگر ہفتے میں 50 یا اس سے کم نئے کیسز سامنے آئیں تو اس رجحان کو قابل قابو سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اگر انفیکشن کی یہ ہفتہ وار شرح 100 سے بڑھ جائے تو اسے خطرے کی گھنٹی تصور کیا جاتا ہے۔
مارچ کے آغاز پر ملک میں یہ شرح 65 کے قریب تھی جو اب بڑھ کر 107 ہو گئی ہے۔
چانسلر انگیلا میرکل پر تنقید بڑھ رہی ہے کہ ان کی حکومت نے ویکسین کی فراہمی میں سستی اور خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایک ایسے وقت پر جب برطانیہ، امریکا اور دیگر ممالک تیزی سے اپنے لاکھوں شہریوں کو کورونا سے بچاؤ کے ٹیکے لگوا رہے ہیں، جرمنی بظاہر بہت پیچھے رہ گیا ہے۔
جرمنی میں ابھی تک کورونا ویکسین محدود سطح پر خصوصی مراکز پر ہی مہیا رہی ہے اور اب تک 8.7 فیصد آبادی کو ایک ٹیکہ اور 3.9 فیصد آبادی کو دونوں ٹیکے لگائے جا سکے ہیں۔
جمعے کو ایک اجلاس میں چانسلر میرکل اور وفاقی ریاستوں کے سربراہان نے فیصلہ کیا کہ ایسٹر کے بعد ویکسین عام ڈاکٹروں کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو لگائی جائے گی۔