اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) انڈس واٹر معاہدے پر بات چیت کے لیے سات افراد پر مبنی پاکستانی وفد گزشتہ روز نئی دہلی پہنچا تھا۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان 23 مارچ بروز منگل تقریبا ڈھائی برس کے وقفے کے بعد دو طرفہ مذاکرات کا باضابطہ آغاز ہو گيا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان پہلی بات چیت ’انڈس واٹر معاہدے‘ کے تحت پانی کی تقسیم کے حوالے سے نئی دہلی میں ہو رہی ہے۔
انڈس پانی کے تنازعے پر دونوں ملکوں کے درمیان سالانہ مذاکرات ہوتے رہے تھے اور یہ بات چيت اسی کا حصہ ہے۔ یہ بات چيت دونوں ملکوں کے انڈس کمشنروں کے درمیان ہو رہی ہے، جس میں سات رکنی پاکستانی وفد کی قیادت سید محمد مہر علی شاہ جبکہ بھارتی وفد کی قیادت پی کے سکسینہ کر رہے ہیں۔
‘انڈس واٹر ٹریٹی’ کے نام سے اس معاہدے میں اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ دونوں ملکوں کے نمائندے سال میں کم سے کم ایک بار اس موضوع پر بات چیت کے لیے ضرور ایک دوسرے کے ملک میں ملاقات کریں گے۔
کشمیر کے مبینہ پلوامہ حملے، پھر بالا کوٹ پر فضائی حملے کے تناظر میں ہونے والی مختصر لڑائی، کشمیر کے لیے خصوصی اختیارت کی ضامن دفعہ 370 کے خاتمے اور پھر اس کا ریاستی درجہ ختم کرنے کے بعد پیدا ہونے والی تلخیوں اور کشیدگی کے سبب دونوں ملکوں کے درمیان ہر طرح کی بات چیت معطل تھی اور اس ضمن میں یہ دونوں ملکوں کے درمیان یہ پہلی رسمی بات چیت ہے۔
کوہ ہمالیہ کی آغوش سے نکلنے والا دریائے انڈس خطہ کشمیر کے لداخ سے گزرتا ہوا پاکستان پہنچتا ہے، جو پاکستان میں دریائے سندھ کے نام سے بھی معروف ہے۔ اس کے علاوہ بھی اس علاقے کے کئی چھوٹے بڑے دریا اور ندی نالے پاکستان سے کشمیر یا پھر کشمیر سے پاکستان کی جانب بہتے ہیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان ان دریاؤں میں بہنے والے پانی کے حوالے سے معاہدہ بھی ہے تاہم ان پر ڈیم کی تعمیر اور بجلی کی پیداوار کے حوالے سے کافی تنازعات بھی ہیں۔ انہی کے حل کے لیے یہ بات چيت ہو رہی ہے۔
نئی دہلی میں اس ملاقات سے قبل بھارتی وفد کے قائد پی کے سکسینہ نے مقامی میڈیا سے بات چيت میں کہا کہ بھارت، ’’اس معاہدے کے تحت اپنے حقوق کے مکمل استعمال کے لیے پرعزم ہے اور بات چیت کے ذریعے مسئلے کے دوستانہ حل پر یقین رکھتا ہے۔‘‘
اس حوالے سے دونوں ملکوں کے درمیان آخری میٹنگ سن 2018 میں پاکستان میں ہوئی تھی۔ اس دوران پاکستان نے دریائے چناب پر بننے والے دو بجلی کے منصوبوں پر اعتراض کیا تھا۔ تاہم ان اعتراضات کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے بھارت نے اس کے بعد متعدد مزید ڈیم بنانے کو منظوری دی ہے۔
غالب امکان اس بات کا ہے کہ پاکستان ایک بار پھر بھارت کے انہی نئے ڈيم منصوبوں پر اعتراض کرے گا۔ انڈس واٹر ٹریٹی کے مطابق دریائے چناب کا بیشتر پانی پاکستان کے لیے وقف ہے۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان گزشتہ تقریبا ڈھائی برسوں سے تعلقات بہت کشیدہ رہے ہیں اور ہر طرح کی باضابطہ بات چيت تعطل کا شکار تھی۔ سن 2019 میں پلوامہ حملے کے بعد بھارتی فضائیہ نے پاکستان میں بالا کوٹ کے مقام پر فضائی حملہ کیا تھا۔ جوابی کارروائی میں بھارت کا ایک جنگی طیارہ اور ایک ہیلی کاپٹر تباہ ہو گیا تھا۔
لیکن گزشتہ کچھ روز کے دوران حالات تیزی سے تبدیل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ پہلے فریقین نے کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی معاہدے پر عمل کرنے کی بات کہی۔ بھارت نے عمران خان کے جہاز کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی اور پھر پاکستان کی ایک نیزہ باز ٹیم ایک بین الاقوامی مقابلے میں شرکت کے لیے بھارت آئی۔ اس طرح دونوں حریف ممالک کے مابین مثبت اشاروں کا سلسلہ شروع ہوا۔
بھارتی ذرائع ابلاغ میں اس طرح کی خبریں آتی رہی ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان حالات کو معمول پر لانے کے لیے بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دووال گزشتہ تین ماہ سے بھی زیادہ عرصے سے اپنے پاکستانی ہم منصب کے ساتھ مل کر کافی کوشش کرتے رہے ہیں۔
اور اب یہ خبر بھی عام ہو چکی ہے کہ اس ماہ کی 30 تاریخ کو تاجکستان میں ہونے والے افغان مذاکرات میں شرکت کے لیے بھارتی وزير خارجہ ایس جے شنکر بھی پہنچ رہے ہیں اور اس بات کا غالب امکان ہے کہ اس موقع پر وہ اپنے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی بھی ملاقات کرنے والے ہیں۔
پاکستانی وزير خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں ہونی والی ‘ہارٹ آف ایشیا کانفرنس‘ میں شرکت کریں گے۔ تاہم بھارتی حکام کے مطابق اس موقع پر بھارت اور پاکستان کے دیگر رہنماؤں کے مابین بھی ملاقات کی توقع کی جا رہی ہے۔
تاہم ان تمام کوششوں کے باجود بھی دونوں ملکوں میں اعتماد کی کمی نظر آتی ہے۔ منگل کو نئی دہلی میں ایک طرف جہاں بات چيت کا آغاز ہوا تو دوسری جانب دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے ناظم الامور کو بھارتی وزارت خارجہ نے اپنے دفتر میں طلب کیا تھا۔ بھارت نے ان سے اس بات پر احتجاج کیا ہے کہ اسلام آباد میں اس کے سفارت خانے میں کام کرنے والے دو ملازمین لاپتہ ہیں اور ان کی سکیورٹی کی ذمہ داری پاکستان پر عائد ہوتی ہے۔