امریکا طالبان جنگ بندی معاہدہ اور مکافات عمل

U.S.-Taliban Peace Deal

U.S.-Taliban Peace Deal

تحریر : میر افسر امان

٢٠ برسوں کی ظالمانہ لڑائی کے بعد سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ صاحب نے دوحہ میں فاقہ مست افغان طالبان سے جنگ بندی کا معاہدہ کیا ۔ وہ متکبر امریکا جس نے پورے افغانستان کو بمباری کر کے تورا بورا بنا دیا۔ ڈیزی کٹر بمب جو زمین کے اندر تباہی پھیلاتے ہیں سارے افغانستان میںبرسائے۔ دنیا کا سب سے بڑا( مدربم) بھی پہلی دفعہ افغانیوں پر گرایا گیا۔ روس اور امریکا نے ایک پسماندہ اسلامی ملک افغانستان میں کسی بھی حرکت کرنے والی چیز کو تباہ کیے بغیر نہیں چھوڑا۔ امریکہ نے اب فاقہ مست افغانیوںسے امن کی بھیک مانگنے کے لیے دوحہ میں معاہدہ کیا۔کل کی دہشت گردوں کو افغانستان کا حقیقی نمایندہ تسلیم کر لیا گیا۔اس معاہدے کے تحت امریکا کو یکم مئی ٢٠٢١ء کو افغانستان سے امریکا سمیت تمام غیر ملکی فوجیں نکالنی ہیں۔معاہدے کے مطابق طالبان نے اپنے ملک افغانستان میں اپنے عوام کی رائے سے حکومت قائم کرنی ہے جو یقینی اسلامی ہی ہو گی۔

طالبان کی طرف سے معاہدے کی پابندی کا یہ عالم ہے کہ معاہدے کی تاریخ سے آج تک ایک بھی امریکی فوجی افغانستان میں ہلاک نہیں ہوا۔ جس کی تصدیق خود امریکانے کی ہے۔مگر دوسری طرف امریکا کے نئے منتخب صدرجو بائیڈن صاحب نے بیان جاری کیا اور طالبان پر الزام لگایا کہ طالبان نے معاہدے پر پوری طرح عمل نہیں کیا۔ لہٰذ ا یکم مئی ٢٠٢١ء کو افغانستان سے امریکی فوجیں نکالنا شاہد ممکن نہیں۔ طالبان پر دبائو کے لیے روس میں امریکا، چین، روس اور پاکستان نے ایک کانفرنس بلائی۔ جس میں کہا گیا کہ ہم افغانستان میں طالبان کی اسلامی حکومت کی حمایت نہیں کرتے۔ اس پر افغانستان کے سپوک پرسن محمد نعیم صاحب نے ماسکو میں میڈیا کانفرنس میں واضح کیا کہ افغانیوں کا یہ حق ہے کہ کونسی حکومت بناتے ہیں،جو یقیناً اسلامی ہی ہو گی۔جو مشرکہ بیانیہ آیا ہے وہ بین ا لاقوامی اصولوںں کے خلاف ہے جو طالبان کے لیے قابل قبول نہیں۔

دور حاضر کی سیاست کا یہ وطیرہ ہے کہ جو جتنا مکار اور جھوٹا ہے وہی کامیاب سفارت کار ہے۔ امریکا نے افغانستان پر وحشیانہ حملہ کرنے سے پہلے ڈکٹیٹر پرویز مشرف سے وعدہ کیا تھا کہ افغانستان میں امریکا کی مدد کے بدلے پاکستان کی دشمن بھارت کو افغانستان میں رسائی نہیں دے گا۔ کشمیر کا مسئلہ بھی پر امن طریقے سے حل کرنے میں مدد دے گا۔ امریکا نے دونوں باتوں پر عمل نہیں کیا۔ بھارت کو افغانستان میں رسائی دی۔بھارت نے افغانستان میںپاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ درجنوں شہروں میں اپنے کونسل خانے کھولے۔ ان کے ذریعے پاکستان میں میں دہشت گردی کرا رہا ہے۔ اس کا زندہ جاوید ثبوت بھارتی نیوی کے حاضر سروس آفیسر کھلبوشن یادیو جاسوس ہے۔ جس نے اپنے ویڈیو بیان میں یہ سب کچھ تسلیم بھی کیا ہے۔

کون نہیں جانتا کہ بھارت ہمیشہ پاکستان کا مخالف رہا ہے؟امریکا نے کشمیر کے مسئلہ کو حل کیا کرانا تھا الٹا آزادی کی جنگ لڑنے والے کشمیریوں کو دہشت گرد کہنا شروع کر دیا۔ دوسری طرف اب بھی پاکستان کا یہ رویہ رہا ہے کہ امریکی فوجوں کو محفوظ طریقے سے افغانستان سے نکلنے کے لیے ہر ممکن مدد کی۔ طالبان کو امریکا سے مذاکرات کرنے پر راضی کیا۔ امریکا سیکڑوں دفعہ بیان جاری کر چکا ہے کہ طالبان امریکا معاہدے میں پاکستان نے امریکا کی ہر ممکن مدد کی ہے۔ ہاں الحمد اللہ! عمران خان حکومت اور فوج پہلی مرتبہ ایک پیج پر ہے۔ اور امریکا اور دنیا کو باور کر اچکے ہیں کہ اب پاکستانی فوج کسی کے لیے بھی کرایا کی فوج نہیں بنے گی۔ کسی کی پرائی جنگ میں شریک نہیں ہو گئی۔ پاکستان نے دہشت گردی میں دنیا میں سب سے زیادہ مالی جانی نقصان برداشت کیا ہے۔ اب امریکا اور دنیا پاکستان کو ڈومور کا نہ کہے۔ بلکہ یہ خود اب ڈور مور کریں۔ اس خطہ کو امن کا گیوارہ بنانے میں ہماری مدد کریں۔

اس قبل پاکستان کی پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی حکومتیں ہمیشہ اپنی ہی فوج کے خلاف امریکا سے مداخلت کی درخواستیں کرتی رہی ہیں۔ میمو گیٹ اور پیپلز پارٹی کا امریکا میں پاکستانی سفیر غدار وطن حسین حقانی کاکردار اور ایبٹ آباد پاکستان میں امریکی مداخلت پر پیپلز پارٹی کے اُس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی امریکا کو مبارک باد،اور زرداری کا بیان کہ پاکستان میں ڈرون حملوںپر اسے کوئی پریشانی نہیں اس کا ثبوت ہے۔ ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے تو امریکا کی ایک ٹیلی فون کال پر گھٹنے ٹھیک دیے۔ نہ اپنی فوج سے مشورہ کیا اور نہ ملکی سیاسی قیادت سے مشاوارت کی۔ بعد میں سیاست دانوں کو بلا کر کہا کہ اگر میں ایسا نہ کرتا تو امریکا پاکستان پر بمباری کر کے پتھر کے دور میں پہنچا دیتا۔ اس کے بعد کل کے مجائدین کو دہشت گردقرار دے کر چھ سو پاکستانیوں کو امریکی ڈالر کی عوض امریکا کوفروخت کیا۔ جس میںمظلومہ امت حافظہ قرآن، امریکا میں اسلام کی دعوت دینے والی اور اسلام کی شیدائی ،اعلی تعلیم یافتہ ڈاکٹر عافیہ صدیقہ کو اس کے تین معصوم بچوں سمیت پاکستان سے اغوا کروا کر پہلے افغانستان کی بلگرام جیل میں ڈالا۔ پھر جب نو مسلم برطانوی صحافی خاتون مریم ریڈلے نے پاکستان میں عمران خان کے ساتھ ملک پریس کانفرنس کی کہ بلگرام جیل میں ایک خاتون کی چیخیں سنی ہیں۔ وہ مظلومہ پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقہ

٢
ہے۔ اس پر امریکا نے اسے افغانستان کی جیل بلگرام سے امریکا منتقل کیا۔اپنے مظالم پر پردہ ڈالنے کے لیے نام نہاد دہشت گردی کا مقدمہ قائم کیا۔ ایک امریکی یہودی جج عافیہ پر دہشت گردی ثابت نہ کر سکا۔ افغانستان میں جیل کی کو ٹھری میں امریکی مشٹنذے امریکی فوجی پر گولی چلانے، جس میں فوج زخمی تک نہیں ہوا، بلکہ عافیہ خود زخموں سے چور عدالت میں پیش ہوئی تھی،متعصب جج نے امریکا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عافیہ صدیقہ کو ٨٦ سال کی قید سنائی۔ جو آج تک ناکردہ گناہ کی یہ سزا امریکا میں کاٹ رہی ہے۔اسی طرح ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے پاکستان میں افغانستان کے سفیر ملا ضعیف صاحب کو بین الاقوامی اصولوں کی دھجیں اُڑاتے ہوئے امریکا کے حوالے کیا۔ جس نے امریکا کی بدنام زمانہ گوامتے بے جیل سے رہائی کے بعد اپنے اُورپر گزرے مظالم پر مبنی کتاب بھی تحریر کی۔

وہ رے مکافات عمل! کہ دوحہ امن معاہدے میں یہ سابق افغانی سفیر برائے پاکستان ملا ضعیف صاحب جس کو امریکا کی جیل گوامتے بے میں قید رکھا گیا تھا وہ امریکیوں کے سامنے بیٹھا مذاکراتی ٹیم کا حصہ تھااور امریکی افغانیوں سے امن کی اپیلیں کر رہے تھے۔ ملا فاضل صاحب سابق سپہ سالار افغان فوج بھی مذکراتی ٹیم میں شامل تھا۔ ملا فاضل بھی امریکا کی گوامتے بے جیل کا قیدی ان مذاکرات میں شامل ہے۔افغانستان کی فوج کا سابقہ سپہ سالار فیلڈ مارشل اور سابق نائب صدر رشید رستم بادردی شریک ہوا۔رشید دوستم نے افغانستان کے سابق سپہ سالار ملا فاضل کو ایک لڑائی میں دھوکے سے اعتماد میںلیا۔ کہا تھا ہتھیار ڈال دو معافی تلافی ہوگی۔ ملا فاضل نے اپنے ساتھیوں سمیت ہتھیار ڈال دیے۔

رشید دوستم نے سیکڑوں طالبان کو قیدی بنا لیا۔ ان کو کنٹینرز میں بند کیا۔ کنٹینرز میںسانس رکنے سے یہ طالبان شہید ہو گئے۔رشید دوستم نے وعدہ خلافی کر کے ملا فاضل کوامریکا کے حوالے کیا تھا۔ امریکا نے اسے بھی گوامتے بے جیل میں قید رکھا۔ پھرطالبان نے امریکا کے اہم کمانڈروں کو گرفتار کیا۔ ان کے بدلے ملا فاضل کو امریکا کی جیل سے قیدیوں کے تبادلہ میں رہا کرایا۔ اس میٹینگ میں رشید دوستم نے ملا فاضل کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا کیسے ہو! تو سابق سپہ لار ملا فاضل نے اس کاہاتھ جھڑک کر کہا، دفا ہو جائو۔ تم وطن کے غدار ہو۔ اس کی فوجی وردی پر بھی اعتراض کیا۔ وہ وددی اتار کر مذاکرات میں شریک ہوا۔ طالبان کا دبدبہ کہ پھر مذاکرات چھوڑ کر سوا ہو کر باہر چلا گیا۔طا لبان قیادت کا کیا کہنا ،کہ اُس نے ملک و قوم کے لیے قربانی دینے والوں کو امریکا کے سامنے بیٹھا کر ان کی قربانیاں دینے والوں کی قدر کی۔

افسوس کا مقام ہے کہ روس کے شہر ماسکو میں امریکا، روس، چین اور پاکستان نے افغانستان میںطالبان اسلامی حکومت کی مخالفت کی۔پاکستان کے حکمران عمران خان جو پاکستان میں مدینے کی اسلامی فلاحی ریاست کی گردان دہراتے رہتے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی اسلامی حکومت کے خلاف امریکا، روس اور چین کی ہاں میں ہاں کیوں ملائیَ؟۔ یہ کھلا ہوا تضاد نہیں تو پھر کیا ہے؟

صاحبو!مسلمان حکمرانوں نے کے لیے یہ سبق یہ ہے کہ جو کوئی بھی قوم اللہ کے بروسے پر ظلم و سفاکیت کے سامنے جہاد فی سبیل اللہ کے ہتھیار سے ڈٹ جاتی ہیں۔ اللہ ان کی ضرور مدد کرتا ہے ۔ کیا افغان کوئی بڑا ملک ہے ۔نہیں یقینانہیں۔ فاقہ مست افغانیوں نے پہلے برطانیہ،رشیا اور اب امریکا سپر ورلڈ پاور کو اللہ کے بروسے پر جہاد فی سبیل اللہ پر عمل کرتے ہوئے، بے یار مدد گار ہونے کے باوجود شکست فاش دی۔ جو یہ مکافاتِ عمل سامنے دیکھتے ہوئے بھی اللہ پر بروسہ نہیں کرتے وہ ایسے ہی ذلیل خوار ہوتے رہیں گے۔ مسلم حکومتوں کے عوام کو تحریک پاکستان جیسے تحریکیں چلا کر جہادی قوتوں کو اقتدرمیں لانا چاہیے ۔پھر دہر میں اسم محمدۖ سے اُجلا ہوگا۔ غلامی کی زنجیریں ٹوٹیں گی۔مسلمانوں کو پھر سے کھویا ہوا مقام حاصل ہو گا۔ انشاء اللہ جلد ایسا ہی ہوگا۔امریکا طالبان جنگ بندی معاہدہ اور مکافات عمل سے توہمیں یہی نظر آ رہا ہے۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان