پاک امریکا تعلقات اور چین

Joe Biden

Joe Biden

واشنگٹن (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی صدر جو بائیڈن نے پاکستان کے ساتھ واشنگٹن کی پارٹنرشپ بہتر کرنے کا اعادہ کیا ہے۔ پاکستان میں ماہرین کے مطابق اس کی گنجائش تو ہے لیکن شاید بہت زیادہ نہیں۔

پاکستان کے سابق سفیر برائے اقوام متحدہ شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان ٹرمپ دور کی سرد مہری ختم ہو رہی ہے اور تعلقات معمول کی طرف آ رہے ہیں۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، “جوبائیڈن جب نائب صدر تھے اس وقت بھی ان کا یہ خیال تھا کہ پاکستان خطے کا ایک اہم ملک ہے۔ امریکا افغانستان میں پاکستان کے تعاون کا معترف ہے۔ وہ بھارت سے قریبی تعلقات کے باوجود اسلام آباد سے تعلقات نہیں بگاڑے گا۔”

ان کا مزید کہنا ہے کہ یہ بات صحیح ہے کہ امریکا چین کے گرد گھیرا تنگ کر رہا ہے لیکن وہ اسلام آباد سے یہ امید نہیں کر سکتا کہ وہ چین کے خلاف جائے گا۔ “ہم اب ساٹھ یا ستر کی دہائی میں نہیں۔ اب پاکستان ایک آزادانہ خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہے جس میں چین اس کا ایک بہت بڑا اتحادی ہے۔ پاکستان کسی بھی دباؤ میں آکر چین سے تعلقات خراب نہیں کرے گا۔”

تاہم بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ امریکا کے قریب جانے سے پاکستان اور چین کے تعلقات میں گرم جوشی متاثر ہوگی۔

اسلام آباد کی پریسٹن یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر امان میمن کا کہنا ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ بھی تعلقات کی بہتری چاہتا ہے جس میں امریکا کا اہم کردار ہے۔

انہوں نے کہا، “بھارتی وزیراعظم مودی کی طرف سے یوم پاکستان پر خصوصی پیغام دیا گیا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں کشیدگی کم ہونے کی طرف جا رہی ہے اور امریکا اس میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔”

انہوں نے کہا کہ ان حالات میں پاکستان کی چین کے ساتھ وہ پہلے والی گرم جوشی نہیں رہے گی۔ “سی پیک کے تقریبا تمام پروجیکٹس پہلے ہی بند ہیں۔ پاکستان چین سے تعلقات خراب نہیں کرے گا تاہم ماضی والی قربت میں کمی آئے گی۔”

بین الاقوامی امور کے کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ امریکا چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے جاپان، آسٹریلیا اور بھارت سے تعاون چاہتا ہے۔ مبصرین کے خیال میں یہ صورتحال پاکستان کے لیے پریشان کن ہو سکتی ہے، جس کے بیجنگ سے انتہائی قریبی تعلقات ہیں۔

اسلام آباد کی نسٹ یونیورسٹی کے عالمی ادارہ برائے امن و استحکام سے وابستہ ڈاکٹربکارے نجم الدین کا کہنا ہے کہ حال ہی میں الاسکا کانفرنس میں یہ بات واضح تھی کہ “امریکا آسٹریلیا، جاپان اور بھارت سے مل کر چین کے گرد گھیرا تنگ کر رہا ہے اور اس اتحاد میں پاکستان شامل نہیں ہے۔ نظر یہ آرہا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ میں جو اہمیت بھارت کو حاصل ہوگی وہ شاید پاکستان کو نہ ہو سکے۔”

لیکن کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ اگر امریکا نے افغانستان کو نظر انداز کیا تو اس سے پاکستان اور خطے کے لیے بہت سارے مسائل پیدا ہوں گے۔

کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ امریکا افغانستان میں اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹتا ہوا نظر آ رہا ہے اور طالبان کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں جس سے پاکستان اور امریکا کے تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔

کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سابق سربراہ ڈاکٹرطلعت اے وزارت کا کہنا ہے کہ افغان صدر اشرف غنی اور بھارت امن مذاکرات کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا، “ایسا لگ رہا ہے کہ امریکا افغانستان میں امن معاہدے کے حوالے سے اپنے وعدوں سے پِھر رہا ہے جس سے یقینا طالبان اور اسلام آباد کو دھچکا لگے گا۔ ایسا ہوا تو افغان طالبان پاکستان پر بھروسہ نہیں کریں گے اور دوبارہ ان کو مذاکرات کی میز پر لانا مشکل ہو جائے گا۔”