اسرائیل (اصل میڈیا ڈیسک) اسرائیل میں حکومت سازی کے لیے کسی بھی پارٹی کو عرب اسلام پسند جماعت ‘رعام‘ کی حمایت حاصل کرنا ہو گی، جس نے حالیہ انتخابات میں پانچ نشستیں حاصل کی ہیں۔
اسرائیل میں منگل کے روز ہونے والے انتخابات کے حتمی نتائج کا اعلان ابھی باقی ہے تاہم 120رکنی پارلیمان میں عرب اسلام پسند جماعت القائمۃ العربیہ الموحدہ (رعام) کو پانچ سیٹیں ملنے کی توقع ہے۔ وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی قیادت والی حکومتی اتحاد کو 52 نشستوں پر کامیابی ملی ہے جب کہ ان کی حریف اتحاد نے 56 سیٹیں حاصل کی ہیں۔
رعام اسرائیل کے انتخابات میں زبردست کامیابی حاصل کر کے پارلیمنٹ میں بطور کنگ میکر داخل ہوگئی ہے۔ رعام عبرانی زبان میں جماعت القائمۃ العربیہ الموحدہ کامخفف ہے جس کے معنی ہیں ‘گرج‘۔
حکومت میں شمولیت، خارج از امکان نہیں خبررسا ں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق رعام پارٹی کے قائد منصور عباس نے ماضی میں دیگر عرب جماعتوں کے موقف کے برعکس اسرائیلی حکومت میں شمولیت کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا ہے۔
منصور عباس نے اسرائیلی ریڈیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا”ہم وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کا کیمپ یا ان کے حریف سے ملنے کے لیے تیار ہیں لیکن میں کسی کی جیب میں نہیں ہوں۔”
اسرائیل کے انتخابات میں اب تک 90 نشستوں کے نتائج سامنے آگئے ہیں اور منصور عباس کی جماعت اب تک120 رکنی کینسیٹ میں پانچ نشستیں حاصل کر چکی ہے۔
اب تک سامنے آنے والے نتائج میں نیتن یاہو کی لیکود پارٹی اور ان کی حریف جماعت دونوں کو حکومت سازی کے لیے واضح برتری حاصل نہیں ہو سکی ہے۔
نیتن یاہو کو حکومت سازی کے لیے کم از کم 61 نشستوں کی اکثریت حاصل کرنے کے لیے منصور عباس کے ساتھ ساتھ مذہبی قوم پرست رہنما نیفتالی بینیٹ کی حمایت بھی درکار ہوگی، جن کے پاس سات نشستیں ہیں۔ جبکہ ان کی حریف جماعت یش ایتد کو بھی حکومت سازی کے لیے منصور عباس یا نیفتالی بینیٹ کی مدد لینی پڑے گی۔
رعام کی پانچ نشستیں حاصل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر نیتن یاہو اسرائیل کا سب سے طویل عرصے تک وزیر اعظم رہنے کا اعزاز اپنے نام کرنا چاہتے ہیں تو انہیں منصور عباس کی حمایت لینی پڑے گی۔
اطلاعات کے مطابق رعام پارٹی اور صہیونی مذہبی جماعت کے درمیان اتحاد کے امکانات کم نظر آرہے ہیں۔ نیتن یاہو کا کیمپ نظریاتی طور پر تقسیم کا شکار ہے جس کے باعث انفرادی طور پر منصور عباس کو اتحاد میں شامل کرنا بہت مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔
نیتن یاہو کے سامنے اب دو ہی راستے ہیں یاتو ایک اور الیکشن میں قسمت آزمائی کریں یا پھر ایک اسلام پسند جماعت کے ساتھ معاہدہ کریں۔
نیتن یاہو کے لیے یہ صورت حال ‘نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن‘ والی ہے۔ وہ فلسطینیوں کے ساتھ کسی بھی طرح کی مصالحت کو مسترد کرکے اقتدار تک پہنچے تھے۔ وہ ملک میں عرب اقلیتوں کے خلاف نسلی بیان بازی اور انہیں دہشت گردوں کا حامی قرار دیتے رہے ہیں۔
دو برس میں چوتھی مرتبہ ہونے والے حالیہ عام انتخابات کے نتائج نے نیتن یاہو کے لیے مصیبت کھڑی کردی ہے۔ ان کا سیاسی مستقبل ایک عرب اسلام پسند جماعت کی حمایت پر منحصر دکھائی دے رہا ہے۔
صیہونی قیادت کے سامنے اب دو ہی راستے ہیں یاتو ایک اور الیکشن میں قسمت آزمائی کریں یا پھر ایک اسلام پسند جماعت کے ساتھ معاہدہ کریں۔
اسرائیل کے سابق رکن پارلیمان اور تھنک ٹینک اسرائیل ڈیموکریسی انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ یوہانن پلیزنر کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو خود اپنے ہی تیار کردہ سیاسی جال میں پھنس گئے ہیں۔
یوہانن کا کہنا تھا کہ 1992میں جب اسحاق رابین کی اقلیتی حکومت نے ایک عرب سیاسی جماعت کی حمایت حاصل کی تھی تو نیتن یاہو نے انہیں صیہونی کاز سے غداری کے مترادف قرار دیا تھا اور عرب اسرائیلی رہنماوں کو دہشت گردوں کا حامی بتایا تھا۔
رعام پارٹی کے قائد منصور عباس نے اسرائیلی حکومت میں شمولیت کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا ہے۔
متبادل کھلے ہیں رعام پارٹی نے فی الحال نتین یاہو یا ان کے حریف کسی کی حمایت کا اعلان نہیں کیا ہے لیکن منصور عباس نے واضح طور پر اشارہ دیا ہے کہ تمام متبادل کھلے ہوئے ہیں۔
منصور عباس کا کہنا تھا”ہمیں بہت احتیاط سے کام لینا ہوگا لیکن ساتھ ہی ہمیں انتظار بھی کرنا ہوگا۔ یہ ایک بڑی ذمہ داری ہے۔”
تل ابیب یونیورسٹی کے تجزیہ کار اجمل جمال کا کہنا تھا کہ عباس نے کوئی سرخ لکیر نہیں کھینچی ہے اور جو گروپ نے ان کے مفادات کو بہتر طور پر سمجھے گا وہ اس کے ساتھ اتحاد کر سکتے ہیں۔ وہ اپنے مطالبات کے حوالے سے یقین دہانی حاصل کرنے کے لیے تمام جماعتوں سے مذاکرات کریں گے۔
تازہ ترین صورت حال کے مدنظر نتین یاہو نے اپنی کامیابی کا ‘باضابطہ‘ اعلان کرنے سے گریز کیا ہے۔ انہوں نے مسلسل پانچویں بار انتخابات سے بھی گریز کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ پچھلے چار انتخابات میں بھی انہیں واضح اکثریت حاصل نہیں ہوسکی تھی۔
نیتن یاہو نے بدھ کے روز اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا”اسرائیل کے لیے ایک مستحکم حکومت وقت کی ضرورت ہے… ہمیں کسی بھی حال میں اسرائیل کو نئے انتخابات میں نہیں گھسیٹنا چاہیے۔”