چین (اصل میڈیا ڈیسک) بیجنگ کو امید ہے کہ اس قانون کی مدد سے ہانگ کانگ میں ایک ”وطن پرست” حکومت قائم کرنے میں مدد ملے گی۔
چین کی پارلیمان میں اہم فیصلے کے مجاز اعلی ادارے نے 30 مارچ منگل کے روز اتفاق رائے سے ہانگ کانگ سے متعلق انتخابی اصلاحات کے ایک متنازعہ نظام کو منظوری دے دی۔ تمام 167 اراکین نے اس کے حق میں ووٹ کیا۔
سن 1997 میں ہانگ کانگ کے چین کے ماتحت آنے کے بعد سے اس خطے کے سیاسی نظام میں یہ اب تک کی سب سے بڑی تبدیلی ہے۔ یہ اہم تبدیلی ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب چین اقتصادی لحاظ سے مضبوط ترین اس خطے پر اپنی گرفت اور مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
چین کی ‘نیشنل پیپلز کانگریس اسٹنیڈنگ کمیٹی’ نے جن تبدیلیوں کو منظور کیا ہے اس کے تحت ہانگ کانگ کی مقننہ کے لیے جو ارکان براہ راست منتخب کیے جاتے تھے ان کی تعداد اب 35 کے بجائے 20 کر دی گی ہے جبکہ اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ کرتے ہوئے اسے 70 سے بڑھا کر 90 کر دیا گیا ہے۔
اس منصوبے کے تحت چین کی کمیونسٹ پارٹی کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ عوام کے ذریعہ منتخب ارکان سے زیادہ ارکان اسمبلی کو خود ہی نامزد کر سکتی ہے۔ اس سے ایوان میں عوام کے ذریعہ منتخب ارکان کی تعداد کم ہو جائے گی۔
انتخاب میں حصہ لینے کے لیے امیدواروں کو سب سے پہلے اپنے سیاسی نظریات کے بارے میں وضاحت کرنی ہوگی۔ اس کے لیے مقامی پولیس اور شہر کے نئے سکیورٹی سسٹم سے بھی رپورٹ طلب کرنے کی بات کہی گئی ہے جس کی منظوری کے بعد ہی امیدوار کو انتخاب لڑنے کی اجازت ہوگی۔
اس کے تحت الیکشن کمیٹی کے ارکان کی تعداد بھی 300 کے بجائے 1500 تک کر دی جائے گی۔ الیکشن کمیٹی کے ممبران پر ہی ہانگ کانگ
کے ناظم اعلی ‘چیف ایگزیکیٹیو’ اور لیجس لیٹیو کونسل کے ارکان کو منتخب کرنے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
انتخابات کے حوالے سے اس متنازعہ اصلاحی قانون کی ابھی تمام تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں جسے ہانگ کانگ کی اسمبلی میں منظور کیے جانے کے بجائے بیجنگ نے بذات خود متعارف کیا تھا۔
ہیٹی میں گزشتہ کئی مہینوں سے احتجاج کے دوران مظاہرین صدر جوونیل موئیز سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہیٹی کی حکومت کو بدعنوانی کے متعدد الزامات کا سامنا ہے۔ عام شہریوں کو ہسپتالوں اور تعلیم و تربیت تک رسائی نہ ہونے کے ساتھ ساتھ کم خوراکی جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ سیاسی اشرافیہ کے خلاف عوامی غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ہیٹی مغربی کرہ کا غریب ترین ملک ہے۔
چونکہ اب زیادہ تر ارکان اسمبلی کا انتخاب بیجنگ کے حمایت یافتہ افراد کریں گے اس لیے اس سے حزب اختلاف کی طاقت مزید کمزور پڑ جانے کا خدشہ ہے۔
ان اقدامات کو ہانگ کانگ کی خود مختاری کو مزید کم تر کرنے اور جمہوریت نواز تحریکوں کے خلاف مزید سختیاں عائد کرنے کی ایک کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ سن 2019 اور 2020 میں جمہوریت نواز مظاہروں کے لیے ہانگ کانگ میں ہزاروں افراد احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکلے تھے۔
چینی حکام نے اس حوالے سے تنقید کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے کہ علاقائی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے انتخابی اصلاحات بہت ضروری ہیں۔
حکام کا کہنا ہے ان تبدیلیوں سے نظام کی کمزوریوں اور کمیوں پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنایا جا سکے گا کہ ہانگ کانگ پر بیجنگ کے حامیوں کا کنٹرول رہے۔