میانمار (اصل میڈیا ڈیسک) میانمار کے دس اہم نسلی باغی گروپوں نے فوجی جنتا کے خلاف جاری عوامی تحریک کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس اعلان سے خدشہ بڑھ گیا ہے کہ یہ جنوبی ایشیائی ملک مزید بد امنی کا شکار ہو سکتا ہے۔
میانمار کی فوج اور مسلح نسلی گروپس کے درمیان عرصہء دراز سے مسلح جھڑپوں کا سلسلہ گاہے گاہے جاری ہے۔ ہفتے کو ایسے دس باغی گروپس نے آن لائن ملاقات میں ملک کی فوج کی جانب سے مظاہرین پر فائرنگ کے واقعات کی مذمت کی۔ باغی گروپ ‘ ریسٹوریشن کونسل آف شان اسٹیٹ’ کے لیڈر یعاد سرک کا کہنا تھا،” فوجی کونسل کے رہنماؤں کو جواب دہ ہونا ہوگا۔” گزشتہ ہفتےمیانمار کی فوج نے مسلح گروہوں کے ساتھ ایک ماہ کی جنگ بندی کا اعلان کیا لیکن اس اعلان میں فوج مخالف مظاہروں کے خلاف طاقت کو نہ استعمال کرنے سے متعلق کچھ نہیں کہا گیا تھا۔
گزشتہ ہفتے میانمار میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نےسکیورٹی کونسل کو خبردار کیا تھا کہ یہ ملک سرد جنگ اور خون ریزی کی جانب جا سکتا ہے۔
مسلح باغی گروپوں کی ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب حال ہی میں ان ہی میں سے ایک گروہ ‘کیرن نیشنل یونین’ (کے این یو) نے کیرن ریاست میں ایک فوجی اڈے پر قبضہ کر لیا اور دس فوجی افسروں کو بھی ہلاک کر دیا۔ فوجی جتنا نے اس کارروائی کا جواب فضائی حملوں سے دیا۔ کیرن نیشنل یونین گروپ فوجی جنتا کا حریف رہا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے بہت سے جنتا مخالف سرکردہ کارکنان کو پناہ دی ہوئی ہے۔ گروپ کا کہنا ہے کہ فضائی حملوں کے باعث بچوں سمیت کئی افراد ہلاک ہوئے اور قریب بارہ ہزار افراد کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا۔
میانمار کی فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ فوج نے صرف کے این یو کو ٹارگٹ کیا تاکہ فوجی اڈے پر ان کے قبضے کو ختم کیا جاسکے۔ ملک میں انٹرنیٹ سروسز اور موبائل ڈیٹا کے استعمال پر عائد پابندیوں کے باعث ملک میں معلومات کی ترسیل اور عام لوگوں کی انفارمیشن تک رسائی مشکل تر ہو گئی ہے۔
ملک بھر میں ہزاروں افراد اب بھی فوج کی جانب سے اقتدار پر قبضے کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ اور اب تک سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں پانچ سو سے زائد مظاہرین ہلاک ہو چکے ہیں۔