جنوبی کوریا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا، جاپان اور جنوبی کوریا نے شمالی کوریا کے ہتھیاروں کے پروگرام کے خلاف ایک ساتھ کھڑے رہنے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
امریکا، جنوبی کوریا اور جاپان کے حکام نے میری لینڈ میں ملاقات کے بعد شمالی کوریا سے زور دے کر کہا ہے کہ وہ اپنے متنازعہ میزائل اور جوہری پروگرام میں تخفیف کرے۔
حال ہی میں شمالی کوریا نے نئی امریکی انتظامیہ کو بھی دھمکیاں دی تھیں، اسی پس منظر میں امریکی صدر جو بائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے اپنے جاپانی اور جنوبی کوریا کے ہم منصبوں، سوہ ہون اور شیگیرو کیتامارو سے میری لینڈ میں ملاقات کی اور اس موضوع پر تبادلہ خیال کیا۔
اس ملاقات کے بعد تینوں نے ایک مشترکہ بیان میں شمالی کوریا کے جوہری اور اس کے بیلیسٹک میزائل پروگرام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ’پختہ سہ فریقی تعاون کرنے کے عز م کا اظہار کیا۔‘
اطلاعات کے مطابق گزشتہ ماہ شمالی کوریا نے دو نئے بیلیسٹک میزائلوں کا تجربہ کیا تھا اور اسی پس منظر میں تینوں ملکوں کے حکام نے شمالی کوریا سے اپنے ہتھیاروں کے پروگرام سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنے کو کہا ہے۔
ماؤ زے تنگ عوامی جمہوریہ چین کے بانی ہیں۔ انہیں بیسویں صدی کی با اثر ترین شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے اور اس کی وجہ چین کا عالمی طاقت بننا ہے۔ اس کوشش میں سات کروڑ افراد کی جانیں ضرور ضائع ہوئی تھیں۔ سن 1976 میں ماؤ زے تنگ کی رحلت ہوئی تھی اور اُن کے آخری دیار کے لیے دس لاکھ افراد پہنچے تھے۔ ان کی نعش کو محفوظ کر کے بیجنگ میں اُن کے مزار میں رکھا گیا ہے۔
بائیڈن انتظامیہ شمالی کوریا سے متعلق خارجہ پالیسی کا ازسر نو جائزہ لے رہی ہے، جو جلد ہی مکمل ہونے والی ہے۔ صدر جو بائیڈن نے میزائل تجربہ کرنے کے حوالے سے شمالی کوریا کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ضرورت کے مطابق وہ شمالی کوریا کے ساتھ سفارت کاری کے استعمال کے بھی حق میں ہیں۔
ٹرمپ کے برعکس امریکا کی نئی پالیسی کیا ہے؟ شمالی کوریا سے متعلق بائیڈن انتظامیہ کی پالسی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بالکل برعکس ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے ابتدائی دور میں شمالی کوریا اور امریکا کے درمیان رسہ کشی پائی جاتی تھی۔ لیکن شمالی کوریا کے آمر کم جونگ ان سے ملاقات کے بعد صدر ٹرمپ کا موقف بلکل بدل گيا تھا اور انہوں نے کہا تھا، ’’مجھے تو ان سے پیار ہوگيا ہے۔‘‘
ٹرمپ اپنے دور صدارت میں شمالی کوریا کے میزائل تجربوں کو نظر نداز کرتے رہے اور اپنی خارجہ پالیسی کی میراث کو مستحکم کرنے کے مقصد سے پیونگ یانگ کے ساتھ ایک جوہری معاہدہ کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ انہیں اس بات کی امید تھی کہ شمالی کوریا ان امریکی پابندیوں کو ختم کرنے کے بدلے میں اپنا جوہری پروگرام ترک کر دے گا، جس کی وجہ سے اس کی معیشت تباہ ہو رہی ہے۔
اس سلسلے میں ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2018 میں سینگاپور میں ہونے والی ایک کانفرنس کے دوران کم جونگ ان سے پہلی بار ملاقات کی اور پھر فروری 2019 میں ویتنام میں بھی ان کی ملاقات ہوئی تاہم دونوں رہنما ایسے کسی معاہدے پر نہیں پہنچ سکے۔
اکتوبر 2019 میں سویڈن میں اسی معاملے پر پھر سے بات چيت ہوئی تاہم شمالی کوریا کے عہدے دار امریکی پابندیوں پر مایوسی کی وجہ سے امریکی سفارت کاروں کے ساتھ بات چیت کے دوران مذاکرات کی میز سے اٹھ کر چلے گئے تھے۔
صدر جو بائیڈن نے اپنی انتخابی مہم کے دوران شمالی کوریا کے ساتھ ایک الگ اور نئی پالیسی وضع کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ کم جونگ ان سے بلا شرط ملاقات نہیں کریں گے۔ اس سے قبل انہوں نے ایک بار شمالی کوریا کے حمکراں کو ’ٹھگ‘ بھی کہا تھا، جس کے جواب میں شمالی کوریا نے انہیں ’پاگل کتا‘ کہا تھا۔