یورپ (اصل میڈیا ڈیسک) ایسا دیکھا جا رہا ہے کہ یورپ میں انجینیئر اور بزنس گریجویٹس کو نوکری نہ دینے کے رجحان میں اضافہ ہو گیا ہے۔ کئی نوجوانوں کا خیال ہے کہ اداروں کی جانب سے کوئی جواب نہ دینے سے ان کی صلاحیتیں زنگ آلود ہوتی جا رہی ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ یورپ میں لاکھوں نوجوان گریجویٹس روزگار کی تلاش میں ہیں۔ یورپی یونین کے ممالک میں مجموعی شرح بیروزگاری سترہ فیصد پر پہنچ گئی ہے۔ یورپی دفتر شماریات کے مطابق وبا کے دوران بیروزگاری کی شرح دوگنا ہو چکی ہے۔
اکتوبر سن 2020 میں تنظیم برائے تعاون اور ترقی (OECD) نے انتباہ جاری کیا تھا کہ یورپ کی نوجوان نسل کو نظرانداز کیے جانے کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے اور اس کی وجہ کورونا وبا کے دوران بیروزگار نوجوانوں کو نوکریوں کے مواقع فراہم نہ کرنا ہے۔
مبصرین کے مطابق کورونا وبا کے دوران عدم نوکری اور درخواستوں کے مسترد ہونے سے نوجوان نسل میں نفسیاتی تناؤ اورن پژمردگی نے جگہ بنا لی ہے۔ ایسا محسوس کیا گیا ہے کہ وبا کے ثانوی اثرات نے سب سے زیادہ یورپی نوجوانوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے۔
اس تناظر میں نوجوانوں کا شکوہ ہے کہ ان کی آواز وبا کے شور میں دب کر رہ گئی ہے۔ کئی اداروں نے فی الحال انٹری پوزیشن پر ملازمت دینے کا عمل بھی معطل کر رکھا ہے۔ سن 2020 کے دوران ملازمتوں سے فارغ کیے جانے کے عمل میں بھی شدت پیدا ہوئی تھی۔ اس کی اہم ترین وجہ کورونا وبا اور لاک ڈاؤن میں تسلسل ہے۔
نوجوان گریجویٹس کی ٹوٹتی امیدیں پندرہ سے چوبیس برس کے یورپی نوجوان یورپی یونین میں نوکری کی تلاش میں مصروف ہیں۔ یورپی دفترِ شماریات کے مطابق وبا کے دوران شرح بیروزگاری میں گزشتہ برس پانچ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ بیروزگاری سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک اٹلی اور اسپین ہیں۔
ان دونوں ملکوں میں پندرہ سے چوبیس برس کی نصف آبادی بیروزگار ہے۔ایک ہسپانوی نوجوان لڑکی خوردی باٹلو کا کہنا ہے کہ اس وقت ہر نوکری کے لیے درخواستیں دینے والے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی ہے اور ابتدائی یا انٹری سطح کی نوکریوں کے لیے بھی مقابلہ شدید ہو گیا ہے۔ باٹلو کے مطابق اب روزگار دینے والی کمپنیوں نے ملازمت کی شرائط کو بھی پہلے کے مقابلے میں سخت کر دیا ہے۔
ہر لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد نوجوان مزید پریشانی کا شکار ہو رہے ہیں۔ آئر لینڈ کی تیئیس سالہ جورجیا برنس کا خیال ہے کہ لاک ڈاؤن میں اضافے سے پرامید رہنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ معمول کی واک پر دوستوں کے ساتھ اب مسرت انگیز گفتگو ناپید ہو گئی ہے کیونکہ سبھی بیروزگار ہیں اور اور واک پر اداسی، پرشانی اور روزگار کی تلاش کے بارے میں بات چیت ہوتی ہے اور اس سے مایوسی بڑھتی ہے۔
جورجیا برنس کا کہنا ہے کہ حقیقت میں ان کے اس دکھ کا احساس کرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ سن 2020 کے ایک بین الاقوامی سروے کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوا ہے کہ عالمی سطح پر پچاس فیصد نوجوانوں میں اضطراب اور پژمردگی کے آثار نمودار ہو گئے ہیں۔ یہ سروے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن اور یورپی یوتھ فورم نے مشترکہ طور پر مکمل کیا تھا۔
یورپی یوتھ فورم ایک غیر حکومتی تنظیم ہے اور اس کا صدر دفتر بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں ہے۔ اس غیر حکومتی تنظیم کی صدر سیلیا مارکولا کا کہنا ہے کہ نوجوان نسل کے گم ہونے کا احساس بظاہر عارضی محسوس ہوتا ہے لیکن جو صورت حال ہے، اس میں یہ احساس مستحکم ہوتا جا رہا ہے کیونکہ حالات جلد معمول پر آتے دکھائی نہیں دے رہے۔ مارکولا کا خیال ہے کہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یورپی پالیسی ساز حکام اور مجاز ادارے نوجوان نسل کو نظر انداز کرنے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔
مارکولا کا یہ بھی کہنا ہے کہ سماجی تحفظ فراہم کرنے والی اسکیمیں وہ سکونو اطمینان فراہم نہیں کرتیں جو برسرِ روزگار ہونے سے میسر ہوتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس وقت نوجوانوں کو جز وقتی نوکریاں اور بغیر کسی وظیفے کے انٹرن شپ فراہم کرنے کا رجحان جنم لے چکا ہے۔ سیلیا مارکولا کے مطابق یورپی حکومتیں نوجوانوں کے ذہنی گراوٹ کا فی الوقت احساس کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔