ایران (اصل میڈیا ڈیسک) ایران کے لیے امریکا کے خصوصی ایلچی رابرٹ میلے کا کہنا ہے کہ بات چیت کا مقصد ایرانی جوہری معاہدے میں واپس آنا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ میلے نے اس معاہدے کو مضبوط بنانے یا جانبی سمجھوتوں کے اضافے کی بات نہیں کی۔ یہ موقف ایرانی جوہری معاہدے کے حوالے سے جو بائیڈن انتظامیہ کے وعدوں سے پیچھے ہٹ جانے کی ترجمانی کر رہا ہے۔
امریکی ایلچی کے اس بیان پر جواب دیتے ہوئے اسرائیل کے اعلی ذمے داران کا کہنا ہے کہ ویانا میں دونوں فریقوں کے بیچ بالواسطہ بات چیت شروع ہونے سے چند روز قبل ایرانی جوہری معاہدے سے متعلق بائیڈن انتظامیہ کے یہ مخلوط پیغامات “انتہائی تشویش” کا باعث ہیں۔
مذکورہ ذمے داران کی جانب سے اتوار کے روز ان اندیشوں کا اظہار ،،، رابرٹ میلے کی جمعے کے روز امریکی چینل PBS کے ساتھ خصوصی گفتگو (انٹرویو) کے بعد سامنے آیا ہے۔
میلے کا کہنا تھا کہ “مقصد یہ جاننا ہے کہ آیا امریکا اور ایران ان اقدامات پر متفق ہو سکتے ہیں جن کا تعین جوہری معاہدے کی طرف واپسی کے لیے واشنگٹن اور تہران پر کیا گیا ہے”۔
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ایران کے خلاف انتہائی دباؤ کی مہم کے حوالے سے میلے کا کہنا تھا کہ “امریکا ان پابندیوں کو اٹھا لینے پر مجبور ہو جائے گا جو ایران کے ساتھ ہونے والے سمجھوتے سے میل نہیں کھاتی ہیں”۔
میلے نے خبردار کیا کہ “اگر فریقین میں سے کسی نے بھی سخت گیر موقف اپنایا تو میرے نزدیک ان کوششوں کا کامیاب ہونا دشوار ہے”۔
ایک اعلی اسرائیلی ذمے دار کے مطابق “اگر یہ ہی امریکا کی پالیسی ہے تو ہمیں اس پر تشویش ہے”۔
مذکورہ ذریعے نے اسرائیلی اخبار Jerusalem Post کو بتایا کہ “رابرٹ میلے کے انٹرویو نے اسرائیل میں اعلی سطح پر حیرانی پھیلا دی ہے۔ اس لیے کہ ماضی میں بائیڈن انتظامیہ زیادہ طویل اور مضبوط ڈیل کی باتیں کرتی رہی ہے گویا کہ وہ کسی نئے سمجھوتے کے لیے کوشاں ہیں مگر میلے کے انٹرویو میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ ایسا نظر آ رہا ہے کہ معاملہ صرف 2015ء میں طے پانے والے سمجھوتے کی طرف واپسی سے متعلق ہے”۔
اسرائیلی ذمے دار کے مطابق رابرٹ نے اپنی گفتگو میں مکمل طور پر یہ واضح نہیں کیا کہ مقصد ایران کو جوہری ہتھیار کے حصول سے روکنا ہے۔ امریکی ایلچی نے نہ تو ایران کو کسی برے رویے کا مورود الزام ٹھہرایا اور نہ خطے میں امریکا کے حلیفوں کے ساتھ مشاورت کی اہمیت پر بات کی۔
اسرائیلی ذمے دار نے مزید کہا کہ “پرانے سمجھوتے کے مطابق 2025ء میں snapback پابندیاں غائب ہو جائیں گی اور 2030ء میں تمام جوہری پابندیاں ختم ہو جائیں گی۔ یورپ تک کا ماننا ہے کہ یہ حیران کن بات ہے کہ ایران اس وقت یورینیم افزودہ کر رہا ہے۔ سال 2030ء میں یہ قانونی ہو جائے گا۔ کیا یہ وہ سمجھوتا ہے جس کی طرف وہ لٹانا چاہتے ہیں ؟”
اسرائیلی ذمے دار نے قیاس کیا کہ شاید امریکی یہ سمجھ رہے ہیں کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو ایران کے ساتھ بات چیت پر کوئی بھرپور جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے۔
امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن ارو ان کے اسرائیلی ہم منصب گابے اشکنازے نے جمعے کے روز ٹیلی فون پر بات چیت کی۔ اس موقع پر ایران کا موضوع زیر بحث آیا تاہم دونوں شخصیات نے رابرٹ میلے کے بیان پر گفتگو نہیں کی۔
ٹیلی فون کال پر ہونے والی بات چیت سے مطلع ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں بائیڈن انتظامیہ کے اندر آراء منقسم ہیں۔