میں گریڈ بائیس کے ریٹائرڈ اعلیٰ سرکاری آفیسر کے گھر میں داخل ہوا تو ایک دلخراش پریشان کر دینے والا منظر میرا منتظر تھا وہاں پر جو حالات تھے وہ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھے ساری زندگی اقتدار کے کوٹھے پر براجمان بیوروکریٹ جس نے ہمیشہ راج کیا تھا جس کی ایک فون کال پر انتظامی مشینری کے ساتھ ساتھ اقتدار کے ایوانوں میں بھونچال آجاتا تھا جو اِس دنیا میں صرف اور صرف رول کر نے آیا تھا وہ اِس خستہ پریشان حال میں ہو گا یہ تو میں نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچھا تھا جب میں دروازے سے داخل ہوا تھا آفیسر صاحب کی قمیض چاک ہو کر لٹک رہی تھی پھٹ کر کئی حصوں میںتقسیم ہو چکی تھی اب وہ قمیض نہیں بلکہ اُس کے چیتھڑے ہی لٹک رہے تھے چہرے اور جسم خراشوں سے خون رس رہا تھا بال بکھرے ہوئے تھے چہرے پر اقتدار کے دبدبے کی جگہ خوف پریشانی مایوسی بے دلی پھیلی ہو ئی تھی مجھے جب دیکھا تو اپنی حالت زار اور پھٹے کپڑوں کا احساس کر کے بہت شرمندہ ہوئے ۔نوکر کو آواز دی جلدی سے میری شرٹ لے کر آئو ابھی میں سرکاری آفیسر کی حالت زار سے ہی نہیں سنبھلا تھا کہ اچانک چیخوں دھاڑوں کے ساتھ اُن کے دو جوان بیٹے ایک دوسرے کو مکے گھونسے مارتے ہوئے ڈرائینگ روم میں داخل ہوئے بیٹوں کی لڑائی کے ساتھ حیران کن منظر یہ شامل ہو گیا کہ بڑی بہن بھی اِس جسمانی دھینگا مشتی میں شامل تھی۔
اِس چیخ و پکار میں پتہ نہیں وہ کس بھائی کی فریق یا حریف تھی کسی بچے کا ہونٹ پھٹا ہوا تھا کسی کے بال منتشرا کھڑ چکے تھے کسی کی آنکھوں پر حملہ کرنے کی وجہ سے وہ سوجی ہوئی تھیں کسی کے کپڑے پھٹ چکے تھے ہاتھ پائوں کا استعمال وحشیانہ طریقے سے جاری تھا جسمانی دھینگا مشتی مار کٹائی کے ساتھ زبان سے زمانے بھر کی فحش گالیوں کا طوفان تیز آندھی کی طرح جاری تھا گندی تھرڈ کلاس گالیوں کے ساتھ ایک لڑکا اپنے کمرے کی طرف دوڑ رہا تھا کہ ابھی اپنی گن لاکر سب کو شوٹ کر دے گا اُس کو بندوق سے دور رکھنے کے لیے مار پیٹ کا سلسلہ پورے جوبن پر تھا بوڑھے باپ آفیسر نے یہ دیکھا تو وہ بھی درمیان میں کود پڑا کہ میر ی موجودگی میں یہ تم کیا کر رہے ہو تو باپ کو گالیوں کا تحفہ ملا کہ تم دور ہو جائو اِس سارے جھگڑے کی وجہ تم ہو کاش تم مر جائو ۔تم ریٹائرڈ ہو کر بھی ہماری جان نہیں چھوڑ رہے خدا کے لیے اولڈ ہوم میں چلے جائو کسی بھائی دوست کے پاس چلے جائو ہماری جان کیوں نہیں چھوڑتے باپ نے میرے سامنے اپنی اعلیٰ بد تمیزی دیکھی تو مارنے کو دوڑا تو آگے سے اُس کو زور دار دھکا دے کر نیچے گرا دیا میں اور نوکر نے آگے بڑھ کر بوڑھے شخص کو اٹھا یا اِسی دوران آفیسر کا چھوٹا بھائی اپنے بیٹوں کے ساتھ آگیا ان بیچاروں نے مل ملا کر بڑی مشکلوں سے سب کو الگ الگ کر کے مختلف کمروں میں لے جا کر بند کر کے باہر سے کمرے بند کر دئیے لیکن ناخلف اولاد کمروں کے اندر سے دھمکیاں گالیاں دئیے جا رہے تھے۔
وحشت جنون پاگل پن کا ایسا منظر میں نے اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھا تھا مجھے لگ رہا تھا میں شاید ہزاروں سال پہلے کسی جنگجو چنگیزی تاتاری قبیلے میں گھس آیا ہوں اِن لوگوں کو تہذیب اخلاقیات چھو کر نہیں گزری تھی جانور نما انسان جو ایک دوسرے سے باتوں کی بجائے لاتوں گھونسوں سے مار رہے تھے پاگل کر دینے والی بات یہ تھی کہ اِن کا باپ گریڈ بائیس کا اعلیٰ سرکاری آفیسرتھا جو نہایت پڑھا لکھا مہذب اقدار کا مالک تھا جس ریٹائرڈ منٹ کے بعد بھی پورے ملک میں ایک نام اورشہرت تھی لیکن وہ اپنی اولاد کے سامنے بے بسی کی تصویر بنا بیٹھا تھا بے بسی کی تصویر کی بجائے اولاد کے ہاتھوں ذلیل و رسوا گالیوں کے ساتھ مار بھی کھا رہا تھا ساری عمر لوگوں پر حکومت کرنے والا آخری عمر میں گالیوں مکوں گھونسوں سے نوازا جارہا تھا میںعروج و زوال کا عجب تماشہ دیکھ رہا تھا عروج و زوال کی یہ پستی۔ مجھے دس سال پہلے کا عروج کا زمانہ یاد آگیا جب یہ سرکاری آفیسر صاحب اپنے جوبن پرتھے جب اِن کی والدہ کے اتنقال پر میں افسوس کے لیے حاضر ہواتو دیکھا شاندار کھانا اورانتظامات تھے میرے پوچھنے پر نوکر نے بتایا کھانا ایک دوست نے بھیجا ہے ٹینٹ وغیرہ کے انتظامات کسی دوسری دوست نے کئے ہیں اب اگلے کئی دن روزانہ کھانا صاحب کے دوستوں کی طرف سے آئے گا تو میری حیرت پر نوکر نے مزید بتایا سر اِس گھر کے تمام اخراجات اور ضرورتیں صاحب کے دوست ہی پورے کر تے ہیں۔
صاحب کی ایک کال پر لو گ اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیتے ہیں جب سے صاحب گورنمنٹ کی نوکری میں آئے ہیں فلاں بیکری سے بیکری کی اشیاء سالانہ گندم چاول دودھ وغیرہ فلاں زمیندار سونے کے زیوارت فلاں جیولر کپڑے وغیرہ فلا ں سپر سٹور اور بازاری کھانوں کے لیے شہر میں پھیلے ہوئے مختلف ہوٹل ہیں جہاں پر صاحب اور ان کی فیملی مفت میں کھانے کھاتے ہیں عمرے اور حج کی ذمہ داری فلاں ٹور ایجنٹ کی ہے غرض صاحب کی تمام ضرورتوں کا خیال مختلف لوگ رکھتے ہیں صاحب کی ایک کال پر لوگ حاضر ہو جاتے ہیں یعنی سرکاری آفیسر صاحب اپنے مختلف عہدوں پر ہونے کی وجہ سے مختلف لوگوں کو نوازتے تھے اِس کے بدلے میں کاروباری لوگ صاحب کی تمام ضرورتوں کا خیال رکھتے تھے یہاں تک کہ جب صاحب نے اپنا ذاتی مکان بنایا تو اُس وقت بھی کسی نے پلاٹ کسی نے فرنیچر کسی نے الیکٹرونکس کا سامان پردے ٹائلیں وغیرہ صاحب کی خوشی کے لیے پیش کردیں اِس طرح صاحب بہادر نے سرکاری نوکری کا فائدہ بھی اٹھا لیا۔
وہ نوکر صوفیا کرا م سے پیار کر نے والا تھا گھر کا بھیدی تھا مجھے صاحب کی حرام خوریوں کی ساری تفصیل بتا دی بعد میں بھی میرے رابطے میں رہا آج جب میں صاحب کے بلانے پر گھر میں داخل ہوا تو یہ خوفناک جنگ جاری تھی جس میں صاحب بہاد ر اپنی لاڈلی اولاد کے ساتھ گتھم گھتا تھے صاحب کی بیگم دو سال پہلے وفات پا گئی تھی بیگم کے انتقال کے بعد اولاد پر جو والدین کی گرفت تھی وہ کمزور پڑ گئی بچوں کی رگوں میں حلال کی بجائے حرام کا مال دوڑ رہا تھا مادیت پرستی میں غرق تھے اب بڑے گھرکے حصے کر نے کی باری آئی تو تین حصے کر دئیے گئے ایک بچہ بیسمنٹ میں دوسرا گرائونڈ فلور پرتیسرا پہلی منزل پر تھا باپ ڈرائینگ روم اور ایک بیڈ روم اپنے استعمال کے لیے رکھا تھا جو طے تھا کہ مرنے کے بعد تیسرے بیٹے کو ملے گا اُس نے یہ اعتراض کیا کہ پتہ نہیں باپ کب مرے گا مجھے ابھی سے میرے حصے کا مکان دیا جائے بڑے بھائی اور بہن نے انکار کیا تو بات ہاتھا پائی تک چلی گئی حرام کے مال کی وجہ سے حرام کے بچوں کو باپ کی عزت تک کی پرواہ نہیں تھی وہ باپ کے مرنے کا انتظار کر رہے تھے میں اور صاحب کا بھائی کافی دیر تک مسئلے کو حل کر نے کی کوشش کرتے رہے پھر فیصلہ ہوا دوبارہ نشست ہو گی واپس آنے سے پہلے میںنے دھیرے سے صاحب سے کہا کاش آپ رزق حلال اولاد کو دیتے تو آج یہ دن نہ دیکھتے تو صاحب کی آنکھوں سے شرمندگی کے آنسو رواں ہو گئے اور بولے جناب واقعی مجھے حرام خوری کی سزا مل رہی ہے۔