مصر (اصل میڈیا ڈیسک) اخوان المسلمین کے اہم رہنما محمد عزت پر سابق صدر محمد مرسی کی معزولی کے بعد تشدد برپا کرنے کا الزام تھا۔
مصر کے سرکاری اخبار الاہرام کے مطابق ایک مصری عدالت نے آٹھ اپریل جمعرات کو اخوان المسلمین کے معروف رہنما 76 سالہ محمود عزت کو شدت پسندی کے الزام کے تحت عمر قید کی سزا سنائی ہے۔
جولائی سن 2013 میں جب مصری فوج نے ملک کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کو معزول کر کے اقتدار پر قبضہ کیا تو اس دوران تشدد پھوٹ پڑا تھا اور محمود عزت کو انہیں واقعات کے لیے دہشت گردی کا قصوروار ٹھہرا یا گیا ہے۔
انہیں قاہرہ میں گزشتہ برس اگست میں گرفتار کیا گیا تھا اور اطلاعات کے مطابق پولیس نے ان کی رہائش گاہ سے بعض خفیہ سافٹ ویئرز بھی بر آمد کیے تھے جن کا استعمال وہ اخوان المسلمین کے دیگر اراکین سے رابطہ کے لیے کرتے تھے۔ پہلے حکام کو یقین ہو چلا تھا کہ شاید وہ ملک چھوڑ کر کہیں باہر چلے گئے ہیں۔
عزت کو اخوان المسلمین اور ان کے مخالفین کے درمیان ہونے والی لڑائی کے دوران ہتھیار سپلائی کرنے کا قصوروار پا یا گیا۔ ان پر سن 2015 میں سرکاری وکیل جنرل ہشام برکات کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام بھی تھا جو اخوان المسلمین کے شدید مخالفین میں سے تھے۔
مصر میں سکیورٹی فورسز اور سابق صدر محمد مُرسی کے حامیوں کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 525 سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔ اس کے برعکس اخوان المسلمون کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں کریک ڈاؤن کے دوران ان کے دو ہزار سے زائد حامی مارے گئے ہیں۔
محمود عزت کے وکیل نے اب تک اس سزا پر رد عمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔ تاہم اس سے قبل اخوان المسلمین نے البتہ یہ بات کہی تھی کہ مصری حکام جھوٹے سیاسی الزامات کے تحت ان پر مقدمہ چلا رہے ہیں۔
اس سے قبل ایک عدالت نے سن 2015 میں ان کی غیر حاضری میں ان کے خلاف مقدمے کی سماعت کرنے کے بعد انہیں موت اور عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ تاہم اسی برس اگست میں ان کی گرفتاری کے بعد ان پر دوبارہ مقدمے کی کارروائی شروع کی گئی۔
سن 2013 کے بعد سے ہی اپنی گرفتاری تک وہ مصر میں اخوان المسلمین کے عارضی سربراہ کے طور پر کام کرتے رہے تھے۔
سن 1928 میں معروف اسلامی اسکالر حسن البناء نے مصر کے شہر اسماعیلیہ میں اخوان المسلمین تنظیم کی بنیاد رکھی تھی۔ لیکن مصر کی حکومت کی نظر میں یہ ایک شدت پسند تنظیم ہے۔
محمد مرسی کے ہزاروں حامی صدر کے عہدے سے اُن کی زبردستی معزولی کے ساتھ ساتھ نئی حکومت کے خلاف بھی اپنا احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا مطالبہ مرسی کی دوبارہ بحالی ہے۔ ان میں زیادہ تر اخوان السلمون کے کارکن ہیں۔ سڑکوں پر کیے جانے والے یہ مظاہرے اب احتجاجی کیمپوں میں تبدیل ہو گئے ہیں۔
مصری فوج کے سربراہ عبد الفتاح السیسی، جو سابق صدر محمد مرسی کی معزولی کے بعد سن 2014 سے مصر کے صدر ہیں، اخوان المسلمین کو کچلنے کے لیے طرح طرح کے حربے و طریقے اپناتے رہے ہیں۔
سن 2013 میں السیسی کی قیادت میں مصری فوج نے قاہرہ کے ناصریہ ضلع میں مظاہرہ کرنے والے سابق صدر مرسی کے حامیوں اور سینکڑوں اخوان ارکان کو قتل کر دیا تھا۔ خونریزی کا یہ واقعہ رابعہ مسجد کے پاس ہوا تھا اسی لیے یہ ‘رابعہ قتل عام ‘کے نام سے معروف بھی ہے۔
حالیہ برسوں میں مصر کے بہت سے ججز اخوان المسلمین کے سینکڑوں ارکان کے خلاف موت کی سزائیں سناتے رہے ہیں۔ حکومت اپنے دیگر سیاسی مخالفین کو دبانے کے لیے بھی طاقت کا بے جا استعمال کرتی رہی ہے اور اس کے لیے اس پر اکثر جبری گمشدگیوں کو استعمال کرنے کے الزام لگتے رہے ہیں۔