تحریکِ انصاف کا جنم اکتوبر 2011ء میں مینارِ پاکستان کے کامیاب جلسے سے ہوا۔ اِس سے پہلے تو خاںصاحب کی قومی اسمبلی میں اکلوتی سیٹ تھی اور پورے پاکستان سے تحریکِ انصاف کو لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ ووٹ ملے۔ جلسے سے پہلے شیخ رشید کی عوامی لیگ کی طرح تحریکِ انصاف بھی ”وَن مَین شو” ہی تھی۔ مینارِپاکستان کے تاریخی جلسے کے بعد تحریکِ انصاف اُبھر کر سامنے آئی۔ تب سے اب تک پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر جنگ کا سا سماں ہے۔ لیگئیے اور تحریکئے سوشل میڈیا پر ہمہ وقت تلواریں سونت کر ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے رہتے ہیں۔ اِس محاذ ارائی میں حکومت کا کچھ بگڑتا ہے نہ اپوزیشن کا، مارے جاتے ہیں تو صرف عوام۔ وزیرِاعظم کو صرف ایک ہی درس یاد ہے ”گھبرانا نہیں” اور اپوزیشن کا ٹارگٹ اقتدار کی کرسی۔ عوام کے لیے اگر کچھ ہے تو فقط وعدۂ فردا کا پھر لولی پاپ جو ہر حکومت دیتی چلی آرہی ہے۔ لولی پاپ سے یاد آیا کہ ایک عورت نے بازار میں ایک دکاندار کو دیکھا جو ایک انتہائی قیمتی پیالے میں بلّی کو دودھ پلا رہا تھا۔ عورت کی نظر تو پیالے پر لیکن اُس نے دُکاندار سے پوچھا کہ کیا وہ بِلّی فروخت کرے گا۔
دکاندار نے کہا ”یوں تو یہ میری پالتو بلی ہے لیکن اگر آپ کو اتنی ہی پسند ہے تو 50 ڈالر لوںگا”۔ عورت نے جھٹ سے 50 ڈالر دکاندار کے ہاتھ پر رکھے اور بولی ”اب جبکہ میں نے یہ بلی خرید لی ہے تو یہ پیالہ بھی مجھے دے دو۔ میں بلی کو اِس میں دودھ پلایا کروںگی”۔ دکاندار نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ”بی بی ! یہ پیالہ دکھا کر ہی تو میں اب تک 300 بلیاں فروخت کر چکا ہوں”۔۔۔۔ ہمارے حکمرانوں کے پاس قوم کو دکھانے کے لیے ایسے ہی پیالے ہیں۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے روٹی، کپڑا اور مکان کا پیالہ فروخت کیا، میاں نوازشریف نے قرض اتاروملک سنوارو کا پیالہ اور خانِ اعظم نے 100 دنوں میں ملک کی تقدیر بدلنے کا پیالہ۔ اُدھر ہم ہیں جو کبھی یہ سوچنا گوارا ہی نہیں کرتے کہ ہمیں جو لولی پاپ دیا جا رہاہے اور جو سنہرے سپنے دکھائے جا رہے ہیں، وہ قابلِ عمل ہیں بھی یا نہیں؟۔یہ لولی پاپ تو ایسے ہی ہے جیسے ایک بلی بہت بھوکی تھی اور چوہا اُس کے سامنے اپنے بِل میں مزے سے بیٹھا تھا۔
بلی کی للچائی نظریں چوہے پر جبکہ چوہا باہر نکلنے کے موڈ میں نہیں تھا۔ بلی کو ایک ترکیب سوجھی۔ اُس نے چوہے کو آواز دے کر کہا ”بھانجے! اگر تم اُس بِل سے نکل کر اِس بِل میں چلے جاؤ تو میں تمہیں 500 روپے دوںگی”۔ چوہے نے لالچ میں آکر پہلے تو اپنا سر باہر نکالا لیکن فوراََ ہی اندر کر لیا۔ بلی نے پوچھا ”بھانجے کیا ہوا؟”۔ چوہا بولا ”خالہ! پینڈا تھوڑا تے پیسے بوہتے نیں، کوئی چکر لگدا اے”۔ (خالہ!فاصلہ کم اور پیسے زیادہ ہیں اِس لیے کوئی چکر ہے)۔ ہماری قوم البتہ یہ کبھی نہیں سوچتی کہ سیاستدانوں کے لولی پاپ میں کوئی ”چکر” بھی ہو سکتا ہے۔ اگر ایک لمحے کے لیے ہم رُک کر سوچتے کہ جس ملک کی تقدیر سات عشروں میں نہیں بدل سکی، 100 دنوں میں کیسے بدل جائے گی۔ جس ملک کے نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں تھامے دَر بدر ہیں، وہاں ایک کروڑ نوکریاں کہاں سے آئیںگی۔ جس ملک کے تمام شہروں کے گھروں کی تعداد لگ بھگ 48 لاکھ ہے وہاں 50 لاکھ گھر کیسے بن پائیں گے۔ جس ملک میں غربت کے ہاتھوں تنگ نوجوان غیر ممالک میں نوکریوں کی تلاش میں جاتے ہیں، وہاں بیرونی ممالک سے لوگ نوکریاں ڈھونڈنے کیوں آئیں گے۔ جس ملک کی معیشت غیروں کے پاس یوںرہن رکھی ہو کہ ملکی قرضہ ساری حدیں توڑتا ہوا جی ڈی پی کے 93 فیصد تک پہنچ جائے (قرضہ ایکٹ کے تحت قرضے کی حد جی ڈی پی کے زیادہ سے زیادہ 60 فیصد تک ہونی چاہیے) وہاں وہاں فلک پہ ستاروں نے کیا اُبھرنا ہے ہر اِک آنکھ جہاں آنسوؤں کا جھرنا ہے
بات دور نکل گئی حالانکہ آج ہم ارادہ باندھ کے بیٹھے تھے کہ ہلکا پھُلکا کالم ہی لکھیں گے لیکن آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے اُس سے بے نیاز بھی نہیں رہا جا سکتا۔ آمدم بَر سرِ مطلب آجکل سوشل میڈیا پر سیاسی لطیفوں کی بھرمار ہے۔ کسی ستم ظریف نے لکھا، سکول میں داخل ہونے والے پٹھان بچے سے ٹیچر نے سوال کیا ”بتاؤ ! علامہ اقبال کون ہیں”؟۔ بچے نے جواب دیا ”ہم کو کیا پتہ ہم آج ہی تو آیا ہے”۔ تبدیلی سرکار بھی یہی کہتی ہے ”ابھی تو ہم آئے ہیں”۔ ہم ”گھبرانا نہیں” کا درس دیتے دیتے تھک بلکہ ”ہَپھ” گئے لیکن عوام میں صبر نہیں۔ اُدھر عوام کے لبوں پہ یہ سوال کہ کہاں گئے وہ 200 ارب ڈالر جن کے بارے میں مرادسعید کہا کرتا تھا ”جس دن عمران خاں حلف اُٹھائے گی، اُس سے اگلے دن ہی 200 ارب ڈالر پاکستان آئے گی اور ہم 100 ارب ڈالر امریکہ کے مُنہ پر دے مارے گی”۔ کہاں ہے 12 ارب روپے روزانہ کی کرپشن کا خاتمہ جس کے بارے میں یہ دعوے کیے جاتے تھے کہ حکومت سنبھالتے ہی اُسے جَڑ سے اُکھاڑ پھینکا جائے گا (سرویز کے مطابق تو کرپشن 4 فیصد بڑھ چکی)؟۔ کہاں ہیں 50 لاکھ گھر، ایک کروڑ نوکریاں، 2 روپے یونٹ بجلی، 45 روپے لٹر پٹرول، غریب کے لیے روزگار اور فری علاج؟۔ کہاں ہے ریاستِ مدینہ اور کشمیر کی آزادی؟۔ 31 ماہ گزر چکے پھر بھی تلقین یہی کہ ”گھبرانا نہیں”۔ قوم بالکل نہ گھبراتی اگر حکومت نے کچھ کرکے دکھایا ہوتا لیکن یہاں تو منصوبہ بندی تک کا فقدان ہے۔ اگر ہے تو صرف ٹیم کی تبدیلی لیکن نتیجہ صفر۔ کب تک آخر کب تک قوم کو ٹرک کی بتّی کے پیچھے لگایا جائے گا اورسارا ملبہ پچھلی حکومتوں پر ڈالا جاتا رہے گا۔
وزیرِاعظم صاحب کی ایک خوبی کے تو ہم بہرحال قائل ہیں اور اپوزیشن سمیت پوری قوم کو بھی قائل ہونا چاہیے کہ وہ ہر فن مولا ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اُنہوں نے سارے علوم گھول کر پی رکھے ہوں۔ قوم تو اُن کی وجاہتِ علمی سے مستفید بھی ہوتی رہتی ہے لیکن اپوزیشن نہیں مانتی۔ اگر اُنہوں نے معیشت کی اُلجھی ہوئی گُتھیاں سلجھاتے ہوئے یہ کہا کہ کٹّوں، انڈوں اور مُرغیوںکی افزائش سے معیشت چلتی ہے تو کیا غلط کہا؟۔ آخر شیخ چِلّی بھی تو (خوابوں خیالوں میں ہی سہی) راتوں رات اِنہی انڈوں کی بدولت ارب پتی بن گیا تھا۔ اگر اُنہوں نے یہ فرمایا کہ پاکستان میں بارہ موسم ہوتے ہیں تو اِس میں بھی قوم ہی کا فائدہ ہے۔ گرمی ہو یا سردی صرف ایک ایک ماہ ہی رہا کرے گی البتہ اُنہوں نے یہ انکشاف نہیں کیا کہ موسم گرما، سرما، بہار اور خزاں کے علاوہ باقی موسموں کا نام کیا ہے۔ اُمید ہے کہ سائنس وٹیکنالوجی کے وزیر فوادچودھری عنقریب اِن موسموں کے نام بھی بتا دیں گے۔جب وزیرِاعظم کہتے ہیں کہ چین میں ایسی ٹرین تیار کی جا رہی ہے جو روشنی کی رفتار سے چلے گی تو ہم اُن کا مذاق اُڑاتے ہیںحالانکہ اِس میں بھی ہمارا ہی فائدہ ہے۔
چونکہ چین ہمارا ”لنگوٹے وَٹ” دوست ہے اِس لیے جب یہ ٹرین بن جائے گی توہم امریکی خلائی شٹل سے بھی پہلے چاند تک پہنچ جایا کریں گے۔ اگر وزیرِاعظم یہ فرماتے ہیں کہ درخت رات کو آکسیجن چھوڑتے ہیں، جرمنی اور جاپان کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں، گائے اگر 6 کلو کی بجائے 12 کلو دودھ دینے لگے تو انقلاب آجائے، تو یقیناََ اِس میں بھی کوئی مصلحت مضمر ہوگی لیکن یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم خانِ اعظم کی باتوں کی گہرائی اور گیرائی کو نہیں پہنچ سکے۔ ہم تو وہ قوم ہیں جس نے موسمیاتی تبدیلی کی وزیر زرتاج گُل کے اِن بزرجمہرانہ بیانات کا بھی مذاق اُڑایا کہ کووڈ 19 میں 19 نکات ہوتے ہیں اوربارشیں عمران خاں کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ آخر اِس میں غلط ہی کیا ہے۔ فردوس عاشق اعوان نے بھی تو زلزلہ آنے پر کہہ دیا تھا ”یہ تو تبدیلی کی نشانی ہے کہ زمین نے کروٹ لی ہے۔ اُسے بھی اتنی جلدی یہ تبدیلی قبول نہیں”۔ آخر ہم مان کیوں نہیں لیتے کہ پاکستان میں جو تبدیلی بھی آتی ہے، عمران خاں کی وجہ سے آتی ہے۔ لیکن ہمیں ”ایویں خوامخواہ” فوج کو موردِالزام ٹھہرانے کا شوق ہے۔