پشاور (اصل میڈیا ڈیسک) پشاور میں امن و امان کی ابتر صورتحال سے سکھ کمیونٹی عاجز آگئی، سکھ تاجروں کو افغانستان کے نمبرز سے بھتے کی کالز آنے لگیں۔
خیبر پختونخوا میں طویل عرصے سے آباد سکھ کمیونٹی صوبائی دارالحکومت پشاور میں امن و امان کی ابتر صورتحال سے تنگ ہوگئے، جرائم میں اضافے کے ساتھ ساتھ اب سکھ کمیونٹی کو بھتے کی کالز بھی آنے لگیں جس سے اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والی تاجر برادری پریشانی کا شکار ہے حیات آباد کارخانو مارکیٹ میں کاسمیٹکس کا کاروبار کرنے والے سردار جی کو افغانستان کے نمبرز سے بھتے کی کالز آرہی ہیں۔
سکھ کاروباری شخصیت کو کچھ عرصے کے دوران دو بار بھتہ نہ دینے پر سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکی آمیز فون کالز آچکی ہیں، افغان نمبرز سے بھتے کی کالز آنے کے حوالے سے حیات آباد پولیس کو آگاہ کر دیا گیا جس پر پولیس اور دیگر تحقیقاتی اداروں نے کام شروع کر دیا، اب تک پولیس کی جانب سے ہونیوالی کارروائی میں سکھ برادری کو تسلی دی گئی کہ جلد کیس کو ٹریس کر لیا جائیگا اور بھتہ خو گرفتار کر لئے جائیں گے۔ ذرائع کے مطابق سکھ تاجر کو بھتے کی کالز کے حوالے سے اعلیٰ پولیس حکام کو جنوری میں آگاہ کر دیا گیا تھا، بھتہ خوری کے علاوہ اندرون شہر پشاور میں اپنے آباؤ اجداد کے ساتھ رہنے والی سکھ کمیونٹی مقامی پولیس کے رویے سے نالاں ہے۔
سکھ سماجی کارکن بابا گورپال سنگھ نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے مذھبی پروگراموں میں پولیس تعاون کرتی ہے لیکن سکھ آبادی والے علاقوں میں جرائم میں اضافہ تشویشناک ہے۔
بابا جی نے بتایا کہ راولپنڈی سے پشاور آنیوالے ہمارے مہمان رقبیر سنگھ سے جنوری کے مہینے میں گوردوارے عبادت کے لئے آتے ہوئے گلی میں موجود مسلح راہزنوں نے گن پوائنٹ پر موبائل چھینا، تین ماہ گزر جانے کے باجود ابھی تک اس کیس میں کچھ نہ ہوسکا، موتی محلہ سے سکھ کمیونٹی کے دو موٹر سائیکل بھی چوری ہو چکے ہیں جن کا ابھی تک سراغ نہیں لگایا جاسکا، کارروائی اور ریکوری نہ ہونے کے باعث اب سکھ کمیونٹی تھانوں میں جانے سے قطرانے لگی ہے۔
بابا گورپال نے بتایا کہ شاہ قبول تھانے میں جب یہ واقعی پیش آیا تو پہلے تھانے والے ایف آئی آر کا اندراج تک نہیں کر رہے تھے جب ایس ایس پی آپریشنز کو بتایا تو تب جا کر موبائل اسنیچنگ کا پرچہ کاٹا گیا، جنوری سے ابھی تک اس کیس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ۔
پشاور میں سکھ کموینٹی سے تعلق رکھنے والے بیشتر افراد موبائل، کپڑے اور حکمت سمیت دوسرے کاروبار سے وابستہ ہے لیکن اشرف روڈ پر موبائل ڈیلر گرویندر سنگھ 6 ماہ سے اپنے کیس کے سلسلے میں تھانے کے چکر لگا لگا کر تھک گیا لیکن ان کے بیٹ جگتار سنگھ سے تھانہ ہشتنگری کی حدود میں چھینے گئے 23 قیمتی موبائل جن کی مالیت تین لاکھ روپے سے زائد بنتی ہے وہ کیس فائلوں کی نذر ہوگیا ، گرویندر سنگھ نے بتایا کہ ایک طرف کورونا اور دوسری طرف گزشتہ سال ستمبر کے مہینے میں ہم سے کاروبار کے لئے خریدے گئے موبائل چاچا یونس پارک کے پاس دن کے وقت اسلحے کی نوک پر لوٹے گئے لیکن اس کیس میں کوئی پیش رفت نہ ہو سکی، بس اعلیٰ احکام سے اپیل ہے کہ ہمارے کیس میں کچھ کر دیں تاکہ کاروبار کو چلا سکیں۔
پشاور شہر میں بسنے والی سکھ کمیونٹی نے پشاور میں انکے ساتھ مختلف اوقات میں پیش آنے والے واقعات کے حوالے سے ایکسپرس کو بتایا کہ سکھ کمیونٹی کے زیادہ تر لوگ تعلیم یافتہ اور تجارت سے وابستہ ہیں انکے ساتھ جب بھی کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو تھانے جا کر رپورٹ درج کرواتے ہیں لیکن صرف روزنامچہ ہی درج کیا جاتا ہے20 فروری کو ڈبگری سے پشاور صدر جانیوالے ڈاکٹر ست بیر سنگھ بھی 50 ہزار روپے مالیت کے قیمتی موبائل سے محروم ہو گئے لیکن ابھی تک اسکا کچھ پتہ نہیں چلا۔
انہوں نے بتایا کہ وہ بی آرٹی بس میں جا رہے تھے کہ ان سے موبائل چوری کیا گیا، واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیجز بھی موجود ہے لیکن ابھی تک اسے گرفتار نہیں کیا گیا، واقعے کی ایف آئی آر کی بجائے روزنامچہ رپورٹ شرقی تھانے میں درج کروائی گئی لیکن کچھ نہ بن سکا، اسی طرح اندرون شہر میں شاہ قبول میں بگھوان سنگھ کے گھر چوری کیس کو بھی دو سال سے زائد عرصہ گزر چکا لیکن ابھی تک چوری کرنے والے ملزمان کو گرفتار نہیں کیا جاسکا جس سے سکھ کمیونٹی پریشانی کا شکار ہے۔