اردن (اصل میڈیا ڈیسک) اردن کی پارلیمان کے ارکان نے وزیراعظم بشرالخصاونہ کے حوالے سے کہا ہے کہ ’’حکومت کا تختہ الٹنے کی کوئی سازش نہیں ہوئی تھی اور سابق ولی عہد شہزادہ حمزہ بن حسین کے خلاف کوئی مقدمہ بھی نہیں چلایا جائے گا۔‘‘
دو ارکان صالح الارموطی اور محمد العلقمہ نے سوموار کو رویا نیوز ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے: ’’وزیراعظم نے آج اس امر کی تصدیق کی ہے کہ حکومت کا تختہ الٹنے کی کوئی سازش نہیں ہوئی تھی۔‘‘
ایک اور رکن پارلیمان عمرالعیاسرہ نے کہا کہ ’’اس (کیس) میں ملوّث شہزادہ حمزہ کے سوا ہرکسی کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔سابق ولی عہد کے ساتھ شاہی خاندان کی روایت اور فریم ورک کے مطابق معاملہ کیا جائے گا۔‘‘
پہلے اردنی حکومت نے شہزادہ حمزہ پر یہ الزام عاید کیا تھاکہ ان سے غیرملکی پارٹیوں سے وابستہ لوگوں کے روابط تھے اور وہ اردن کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتے تھے اور وہ کچھ عرصہ کے لیے زیر تفتیش رہے تھے۔شہزادہ حمزہ کو مرحوم شاہ حسین نے اپنی وفات سے قبل ولی عہد مقرر کیا تھا لیکن 2004ء میں ان کے سوتیلے بھائی شاہ عبداللہ دوم نے انھیں اس منصب سے معزول کردیا تھا۔
انھوں نے گذشتہ ہفتے ایک ویڈیو جاری کی تھی اور اس میں کہا تھا کہ وہ گھر پر نظربند ہیں اور انھیں کسی بھی شخص سے روابط سے روک دیا گیا ہے۔انھوں نے سرکاری نظام میں کرپشن سے متعلق سخت الفاظ میں گفتگو کی تھی۔
شاہ عبداللہ دوم نے گذشتہ اتوار کو کہا تھا کہ اردن میں گذشتہ کئی عشروں کے بعد سب سے تکلیف دہ سیاسی بحران اب ختم ہوچکا ہے۔وہ 11 اپریل کو شہزادہ حمزہ کے ساتھ نمودار ہوئے تھے اور ان کے ساتھ ان کے چچا شہزادہ حسن بن طلال تھے۔
شہزادہ حمزہ نے گذشتہ سوموار کو شاہی خاندان کی مصالحتی کوششوں کے بعد شاہ عبداللہ دوم سے بیعت کا اعادہ کیا تھا۔اس پر خود شاہ عبداللہ دوم نے گذشتہ بدھ کو ایک نشری تقریر میں کہا تھاکہ ’’سابق ولی عہد نے ملک کے مفادات،اس کےآئین اور قانون کو تمام چیزوں سے مقدم رکھنے کا وعدہ کیا ہے اورانھوں نے اس تنازع کو ہاشمی خاندان کی روایات اور فریم ورک کے مطابق طے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔میں نے اس ضمن میں اپنے چچا الحسن بن طلال کو معاملہ طے کرنے کامکمل اختیار دیا ہے۔‘‘
انھوں نے کہا کہ ’’شہزادہ حمزہ اپنے محل میں اپنے خاندان کے ساتھ اور میری نگرانی میں ہیں۔اس معاملے کے دوسرے پہلوقانون کے مطابق اس وقت زیرتحقیق ہیں۔تحقیقات کے تکمیل کے بعد ان کے نتائج کی روشنی میں ہمارے آزمودہ دیرینہ ریاستی ادارے کوئی فیصلہ کریں گے۔اس تمام معاملہ میں انصاف اور شفافیت کو ملحوظ رکھا جائے گا۔‘‘
اردن میں سکیورٹی حکام نے تین اپریل کوسابق ولی عہد شہزادہ حمزہ کو ملک میں گڑبڑ پھیلانے کی سازش کے الزام میں ان کے محل میں نظربند کردیا تھا اور شاہی دیوان کے سابق سربراہ اور سابق وزیرخزانہ باسم عوض اللہ سمیت بیس افراد کو گرفتارکرلیا تھا۔
اردن کے نائب وزیراعظم اور وزیرخارجہ ایمن الصفدی نے چار اپریل کوایک نیوزکانفرنس میں بتایا تھا کہ ملک کو عدم استحکام سے دوچارکرنے کے لیے ایک ’’مذموم سازش‘‘ تیار کی گئی تھی۔اس کے ایک مرکزی کردار سابق ولی عہد شہزادہ حمزہ بن الحسین تھے،انھوں نے مقامی حکام اور قبائلی عمائدین کو اپنے حق میں متحرک کرنے کی کوشش کی تھی۔اس کے علاوہ ان کے غیرملکی پارٹیوں سے بھی روابط استوار تھے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ’’ان افراد کی سرگرمیاں ملکی استحکام وسلامتی کے لیے خطرے کا موجب تھیں،اس لیے انھیں حراست میں لیا گیا ہے اور ان کے خلاف تحقیقات کی جارہی ہے۔‘‘