جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمنی میں ’نیشنل انفیکشن کنٹرول لاء‘ میں متنازعہ تبدیلیوں پر اتفاق کے بعد کورونا وبا کی روک تھام کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات کرنے کے لیے وفاقی حکومت کو مرکزی اختیارات ملنے کی امید کی جا رہی ہے۔
جرمنی میں ‘نیشنل انفیکشن کنٹرول لاء‘ میں متنازعہ تبدیلیوں پر اتفاق کے بعد کورونا وبا کی روک تھام کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات کرنے کے لیے وفاقی حکومت کو مرکزی اختیارات ملنے کی امید کی جا رہی ہے۔
منگل 13 اپریل کو قومی انفیکشن کنٹرول قوانین میں مجوزہ مگر متنازعہ تبدیلیوں پر اتفاق کی امید کی جا رہی ہے جس کے بعد برلن میں مرکزی حکومت کو کورونا انفیکشن کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے زیادہ اختیارات ملنے کی توقع کی جا رہی ہے۔ قوانین میں ان تبدیلیوں کی تجویز پر چند ریاستوں کی طرف سے اب تک تنقید کی جاتی رہی ہے۔ ان پر اتفاق کے بعد چانسلر انگیلا میرکل کی حکومت کو اُن علاقوں میں جہاں انفیکشن کی شرح بہت زیادہ ہے، رات کا کرفیو نافذ کرنے ور اسکولوں کو بند کرنے کے اختیارات حاصل ہو سکیں گے۔جرمنی کو وبا کے باعث سالانہ بجٹ میں 190
اس اقدام کا مقصد وفاقی حکومت اور طاقتور صوبائی حکومتی سربراہان کے مابین جاری سیاسی جنگ کا خاتمہ کرنا ہے جو ایک ایسے وقت میں نہایت ضروری عمل ہے، جب جرمنی کورونا کی تیسری لہر کی زد میں ہے اور اس سے ملک کے صحت کے نظام پر غیر معمولی حد تک بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔
کورونا وبائی بحران کے دوران جرمنی کی مرکزی حکومت اور صوبائی یا ریاستی حکومتوں کے مابین عدم اتفاق بہت کُھل کر سامنے آیا ۔ خاص طور سے صحت کے معاملے میں ریاستی قائدین نے مکمل طور پر وفاق کی ہدایات پر عملدرآمد کا مظاہرہ نہیں کیا۔ کورونا لاک ڈاؤن کے معاملے میں اکثر ریاستوں نے جرمن چانسلر کے ساتھ طے ہونے والے ضوابط تک پر عمل نہیں کیا اور اپنے ہاں دکانیں اور سنیما گھر وغیرہ کھولنے کی اجارت دے دی۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران برلن اور صوبوں کے رہنماؤں کی مسلسل اور باقاعدہ ملاقاتیں ہوتی رہیں تاہم ان کا کوئی مثبت نتیجہ نکلنے کی بجائے تلخ تنازعات اور قواعد پر عدم تعمیل کی نشاندہی ہوئی۔ یہاں تک کہ ایسے علاقوں کے بارے میں جہاں کورونا وائرس کے نئے کیسز اور اموات کے سات روزہ اعداد و شمار کے حوالے سے یہ طے پایا تھا کہ اگر ہر ایک لاکھ کی آبادی میں 100 سے زائد نئے کیسز کا اندراج ہوا تو وہاں کورونا پابندیوں میں کی جانے والی نرمی کو ختم کر تے ہوئے ضوابط دوبارہ سخت کر دیے جائیں گے، اس معاہدے کی پابندی چند ریاستی حکومتوں نے نہیں کی اور اس کی خلاف ورزی کورونا کیسز کے پھیلاؤ کا سبب بنی۔
برلن کا تاریخی مقام برانڈنبرگر گیٹ بھی کورونا کے سبب بالکل سنسان پڑا ہے۔
پیر 12 اپریل کو برلن میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ترجمان اشٹیفان زائبرٹ نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا تھا کہ کورونا کی روک تھام کے لیے نئے قوانین کا مقصد ”یکساں قومی ضوابط‘‘ طے کرنا ہیں۔ انہوں نے کہا، ”مقصد یہ ہے کہ ملک میں جلد از جلد انفیکشن کی شرح کو ممکنہ حد تک کم کیا جائے اور ٹیسٹ کی مدد سے انفیکشن کی شرح میں کمی کی نشاندہی کے ساتھ ہی ہم انتہائی ذمہ داری کے ساتھ پابندیوں میں نرمی کر سکیں۔‘‘ اس سلسلے میں منگل کو برلن میں کیبینٹ کی طرف سے متوقع منظوری کے بعد وفاقی حکومت ملک بھر میں ‘ایمرجنسی بریک‘ لگانے کی مجاز ہو گی۔ اس بارے میں ایک مسودہ خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی نظر سے گزشتہ ویک اینڈ گزرا جس سے پتا چلا کہ تبدیل شدہ قانون میں بہت زیادہ کورونا کیسز کے انداراج والے علاقوں میں رات نو بجے سے صبح پانچ بجے تک کا کرفیو نافذ کرنا، غیر ضروری اشیاء کی دکانوں کی بندش اور دو مختلف گھرانوں کے زیادہ سے زیادہ پانچ افراد کی ‘سوشل گیدرنگ‘ یا سماجی میل جول کی اجازت جیسے ضوابط شامل ہوں گے۔ اس قانونی مسودے میں برلن کے اسکولوں کی بندش کے احکامات بھی شامل ہوں گے۔ یہ معاملہ عام طور پر وفاقی حکومتوں کے اختیار میں ہوتا ہے تاہم قانون میں تبدیلی کا مقصد تعلیمی اداروں کی بندش اور زیادہ سے زیادہ ورچوئل لرننگ کی حوصلہ افزائی کے لیے برلن سمیت دیگر صوبوں سے بھی مطالبات کیے جائیں گے۔ بہت سی ریاستوں کے سربراہان اس پر سخت اعتراض کر رہے ہیں اس لیے برلن میں چانسلر کے ترجمان زائبرٹ نے کہا کہ اس پر ابھی مزید بحث ہو رہی ہے۔
جرمن ریاست لوور سیکسنی کے وزیر داخلہ بورس پسٹوریئس نے اخبار ‘ڈی ویلٹ‘ کو پیر کو بتایا، ”ریاستوں سے اختیارات لے لینا وہ بھی عین ایک بحران کے دوران، ایک بہت بڑی غلطی ہو گی۔‘‘ جرمنی کے صوبوں اور بلدیات کی ایسو سی ایشن نے بھی ایک اخبار کو اس بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ان اقدامات کو” آئینی طور پر مشکل‘‘ قرار دیا ہے۔ کیبینٹ میں منظوری کے بعد بھی قوانین میں تبدیلی کا حتمی فیصلہ پارلیمان کرے گی جہاں میرکل کے دائیں بازو کے قدامت پسندوں اتحاد کو اکثریت حاصل ہے۔ یہ قانون ایوان بالا کی منظوری کے بغیر بھی منظور ہو سکتا ہے، جہاں اس بل کی منظوری کے امکانات کم ہیں۔ نشریاتی ادارے اے آر ڈی کو بیان دیتے ہوئے میرکل کے قدامت پسندوں کے پارلیمنٹری لیڈر رالف برکن ہاؤس نے کہا، ”ہمیں ہر کسی کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت نہیں۔‘‘