آگیا وہ مہینہ جس کا مسلمان کو انتظار رہتا ہے اور انتظار بھی اس شدت کا کہ بیان نہیں کیا جاسکتا۔ مومن لوگ اس ماہ کا اس لیے انتظار کرتے ہیں کہ وہ اس ماہ میں اپنے گناہوں کی بخشش کرواسکیں ۔ وہ اللہ کی طرف سے لگائی گئی نیکیوں کی سیل سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں۔ اپنے رب کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اپنے دانستہ اور غیر دانستہ کیے گئے گناہوں کی توبہ کرسکیں مگر دوسری طرف وہ مسلمان بھی اس رمضان المبارک کا شدت سے انتظار کرتے ہیں جنہوں نے اپنے کاروبار کے ذریعے روزداروں سے منافع کی شرح دوگنابڑھا کر ان کو لوٹنے کا بندوبست کررکھا ہوتا ہے۔ جو چیز رمضان سے پہلے ایک روپے کی فروخت ہورہی ہوتی ہے اسی چیز کو رمضان المبارک میں دوگنی قیمت کرکے روزداروں کی فروخت کی جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کو روزداروں یا روزوں سے کوئی غرض نہیں بلکہ ان کو تو بس پیسے سے پیار ہوتا ہے اور وہ پیسے کمانے کے چکر سب کچھ کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ ایسے مسلمان بھی ہوتے ہیں کہ سارا دن روزہ رکھتے ہیں اور اپنے کاروبار میں جھوٹ بول کر اضافہ کرتے ہیں اور پھر اسی روزے کا ثواب گنوا دیتے ہیں۔ تیسرے وہ لوگ ہیں جو اس رمضان المبارک کے ماہ کاانتظار کرتے ہیں جن کو سحر و افطار میں مومن کی طرف سے کھانے پینے کو بغیر مانگے مل جاتا ہے۔ جن سفید پوشی کا بھر م اللہ تعالیٰ رکھ لیتا ہے اور وہ رمضان کے روزے سکون و آرام سے رکھ لیتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی غیبی امداد کر دیتا ہے۔
اس مہینے کی جو افادیت ہے وہ مسلمان سے زیادہ کوئی نہیں جانتا ہے۔ رمضان المبارک ایک برکتوں والا مہینہ ہے ۔اس ماہ میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو خود اجر دیتے ہیں اوراس ماہ میں اللہ تعالیٰ نیکیوں کی سیل لگا دیتے ہیں۔ اب یہ مسلما ن پر منحصر ہے کہ وہ اس سیل سے کتنا فائدہ اٹھا تا ہے؟اگر دنیاوی چیز کی سیل لگ جائے تو ہر شخص اس طرف بھاگتا ہے اور ادھر سے ایک چیز کے بجائے کئی کئی چیزیں لے لیتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارا مہمان اور اللہ کا محبوب مہینہ جس میں اللہ تعالیٰ خود مسلمان کواجرو ثواب دیتے ہیں اس سے کون کون فائدہ اٹھاتا ہے۔
ماہ رمضان کا بابرکت مہینہ ایک بار پھر آ نے والا ہے اور دنیا کے کسی بھی گوشہ میں جہاں جہاں بھی مسلمان موجود ہیں وہ کسی بھی ملک و مسلک سے تعلق رکھتے ہوں ہرجگہ اور ہر طرف ان پرسعادت و برکت کی رحمت کا نزول شروع ہوجاتا ہے ۔روزے کے ساتھ قیام ، رکوع و سجود ،دعا ؤ مناجات اورتلاوت قرآن پاک کے عملیات شروع ہوجاتے ہیں۔اس ماہ مبارک کی آمد کا یہی وہ مبارک دن تھا جب تقریبا” پندرہ سو سال قبل مسجد نبوی کے منبر سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی امت کو یہ خوش خبری سنائی تھی۔
” لوگو ! خدا کا مہینہ برکت و رحمت اور مغفرت کے ساتھ تمہاری طرف آ رہا ہے وہ مہینہ جو خدا کے نزدیک بہترین مہینہ ہے جس کے ایام بہترین ایام جس کی راتیں بہترین راتیںہیں اور جس کی گھڑیاں بہترین گھڑیاں ہیں ، (اس مہینہ میں ) تمہاری سانسیں ذکر خدا میں پڑھی جانے والی تسبیح کا ثواب رکھتی ہیں تمہاری نیندیں عبادت ، اعمال مقبول اور دعائیں مستجاب ہیں اپنے پروردگار کے سامنے سچی نیتوں اور پاکیزہ دلوں کے ساتھ روزہ رکھنے اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے کی توفیق کی دعا کرنی چاہئے وہ شخص بڑا بدقسمت ہے جو اس عظیم مہینے میں خداکی ان برکات سے بہرہ مند نہ ہو سکے”۔
اس مہینے کی بھوک اور پیاس کے ذریعے روز قیامت کی بھوک اور پیاس کو یاد کرو ، غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرو بڑے کا احترام کرو اور چھوٹوں کے ساتھ محبت سے پیش آؤ ، زبان سے نامناسب باتیں کا پرہیز کرو،کان سے ناروا آوازیں سننے اور نگاہ ناجائز چیزیں دیکھنے سے محفوظ رکھو ، یتیموں کے ساتھ اچھا سلوک کرو ، گناہوں سے توبہ و استغفار کرو کیونکہ آخر سب انسان کو خدا کے پاس پلٹ کر واپس جانا ہے۔
رمضان المبارک میں نیکی کا ثواب کئی گنا زیادہ ہو جاتا ہے۔مومن انسان کے لئے بھلائی کے تمام دروازے کھل جاتے ہیں۔ اسی بابرکت مہینہ میں قرآنِ مجید نازل ہوا۔ اس کا پہلا حصہ رحمت ، دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم سے آزادی کا ہے۔حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی ا کرم ۖنے فرمایا: ”جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں،جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتاہے۔” اسی ماہ کی پانچ خصوصیات کے بارے میںحضرت ابوہریرہسے روایت ہے کہ نبی کریم نے پانچ خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ”میری اْمت کو رمضان المبارک میں پانچ ایسی خصوصیات دی گئی ہیں جو پہلی کسی بھی امت کے حصہ میں نہیں آئیں: ٭ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے ہاں مشک کی خوشبو سے زیادہ محبوب ہے۔ ٭ روز داروں کے لئے فرشتے استغفار کرتے ہیں حتیٰ کہ وہ روزہ افطار کرلیں۔ ٭ ا للہ تعالیٰ روزانہ جنت کو مزین کرتے ہیں اور فرماتے ہیں ”میرے نیک بندوں سے عنقریب آزمائش ختم ہوگی اور وہ تیرے اندر داخل ہوں گے۔” ٭ شیاطین کو بند کردیا جاتاہے، وہ عام دنوں کی طرح لوگوں کو گمراہ نہیں کرسکتے۔ ٭ رات کے آخری پہر لوگوں کی بخشش کی جاتی ہے۔
روزہ اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکرادا کرنے کا وسیلہ ہے ۔.روزہ حرام کردہ اشیاء کو ترک کرنے کاسبب بنتا ہے ۔لہذا اللہ تعالی کے حرام کردہ کاموں میں روزہ بچاؤ کا سبب بنتا ہے۔ روزہ ، مساکین پر رحمت ، مہربانی اورنرمی کرنے کا باعث ہے ۔اس لیے کہ جب روزہ دار کچھ وقت کے لیے بھوکا رہتا ہے تو پھر اسے اْس شخص کی حالت یاد آجاتی ہے جسے ہروقت ہی کھانا نصیب نہ ہوتا ، تو وہ اس پرمہربانی اور رحم اور احسان کرنے پر ابھارتا ہے۔
رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں اللہ تعالیٰ لاتعداد لوگوں کو جہنم کی آگ سے آزاد کردیتے ہیں۔ ا س لئے انسان کو اگرچہ پورے رمضان میں ہی نیک اعمال کی مکمل کوشش کرنا چاہے مگر آخری دس دنوں میں خصوصی طور پر اعمالِ صالحہ کا اہتمام کرنا چاہئے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ بے شک نبی کریم ۖ رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں اتنی عبادت کرتے تھے کہ اس طرح کسی اور دنوں میں نہیں کرتے تھے اور ایک حدیث میں ہے کہ آپ ا آخری عشرہ میں راتوں کوجاگتے اور عبادتِ الٰہی کے لئے کمر باندھ لیتے اور اہل خانہ کوبھی جگا لیتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں انتہائی مختصر وقت کے لئے اس دنیا میں بھیجا ہے۔عنقریب ہی ہم خالق حقیقی کے حضور کھڑے ہوکر اپنے اعمال کا حساب و کتاب دینے والے ہیں اس لئے ماہِ رمضان کے لئے مناسب تیاری کریں اور پورا مہینے میں بھرپور کوشش کرکے مالک ِارض و سما کو خوش کرلیں۔رمضان المبارک میں سود خور مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ روزداروں کے لیے منافع کم سے کم رکھیں تاکہ اللہ تعالیٰ ان کی نیتوں کو دیکھتے ہوئے ان کے لیے اپنی رحمتوں کے دروازے کھول دے۔