جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمن وزیر آنے گریٹ کرامپ کیرنباؤر نے کہا ہے کہ افغانستان سے جرمن فوج کے انخلا کے تناظر میں افغانستان میں جرمن فوج کی مدد کرنے والے افغان باشندوں کو جرمنی میں پناہ دی جانا چاہیے۔
آنے گریٹ کرامپ کیرنباؤر کے مطابق برلن حکومت پر ‘گہری ذمہ داری‘ عائد ہوتی ہے کہ وہ ایسے افراد کا تحفظ یقینی بنائے، ن کی زندگیاں افغانستان سے غیرملکی افواج کے انخلا کے بعد خطرے میں ہوں گی۔
آج اتوار 18 اپریل کو جرمن خبررساں ادارے ڈی پی اے کے ساتھ بات چیت میں جرمن وزیردفاع کا کہنا تھا کہ وہ چاہتی ہیں کہ ایسے تمام افغان شہریوں کی مدد کی جائے، جنہوں نے افغانستان میں جنگ کے دنوں میں جرمن فوج کی مدد کی۔ کرامپ کیرنباؤر کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب نیٹو اور امریکا نے اعلان کیا ہے کہ وہ رواں برس افغانستان سے تمام فوجی نکال لیں گے۔ اس اعلان کے بعد یہ خدشات پیدا ہو گئے ہیں کہ ایسے افغان باشندے جنہوں نے غیرملکی فورسز کی مدد کی، کیا وہ محفوظ ہوں گے؟ جرمن فوج نیٹو کے تعاون و تربیت مشن پر مامور رہی ہے، جس کا کام افغان مسلح افواج کی تربیت ہے۔
جرمنی کے لیے کام کرنے والے افغان شہریوں کو پناہ دینے کے حوالے سے ایک طریقہ کار پہلے ہی موجود ہے، تاہم کئی معاملات میں ابہام اور مسائل بھی موجود ہیں۔ کرامپ کیرنباؤر موجود نظام کو بہتر اور مستعد بنانا چاہتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جرمنی کے لیے کام کرنے والے افغان شہریوں کو جرمنی میں رہائش کی درخواست دینے اور اس درخواست کی قبولیت کے عمل میں تیزی لانے اور اسے پورے طریقہ کار کو سہل بنانے کی ضرورت ہے۔
کرامپ کیرنباؤ نے ڈی پی اے سے بات چیت میں کہا، ”ہم ایسے افراد کی بات کر رہے ہیں، جنہوں نے ہمارے شانہ بہ شانہ کام کیا حتیٰ کہ کچھ کیسز میں تو ان لوگوں نے اپنی سلامتی تک کی پرواہ نہیں کی۔ یہ وہ افراد ہیں، جو اپنی ذاتی حیثیت میں ہمارے ساتھ مل کر لڑے۔ مجھے لگتا ہے کہ اب جب کہ ہم افغانستان سے نکل رہے ہیں، وفاقی جمہوریہ جرمنی کی یہ گہری ذمہ داری ہے کہ ایسے افراد کو غیرمحفوظ حالت میں پیچھے نہ چھوڑ آئے۔‘‘
یہ بزرگ شخص اُن 100 سے زائد افغان شہریوں میں سے ایک ہیں جن کی تصاویر کو جرمن فوٹوگرافر ژینز اُمباخ نے افغانستان کے شمالی حصے کے شہر مزارِشریف کے دورے کے دوران اپنے کیمرے میں محفوظ کیا۔
واشنگٹن سمیت نیٹو اتحاد کی جانب سے افغانستان سے فوجی انخلا کے اعلان پر متعدد حلقوں کی جانب سے تحفظات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس انخلا کی وجہ سے افغانستان میں طالبان مزید مضبوط ہوں گے۔ گو کہ مغربی قوتیں افغانستان میں ممکنہ شورش پھوٹ پڑنے سے باخبر ہیں، تاہم نیٹو ممالک کا کہنا ہے کہ وہ افغان عوام کی مدد جاری رکھیں گے۔
یہ بات اہم ہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں طالبان کے ساتھ طے پانے والے امن معاہدے کے تحت امریکا کو یکم مئی تک افغانستان سے فوج نکالنا تھی، تاہم صدر جوبائیڈن نے گیارہ ستمبر تک امریکی افواج کے انخلا کااعلان کیا ہے۔ جرمنی کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں اپنا مشن اگست کے وسط تک ختم کر دے گا۔