دہلی (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت میں کورونا وائرس کی وبا کی دوسری لہر المناک بحرانی حالات کا سبب بن رہی ہے۔ کئی یونین ریاستوں میں آکسیجن کی شدید قلت ہے اور ملکی نظام صحت بھی زبردست دباؤ کا شکار ہے۔
بھارت میں حکومتی اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں کورونا وائرس کی انفیکشن کے تقریباً پونے تین لاکھ نئے کیس سامنے آئے۔ ایک دن کے اندر اندر متاثرین کی تعداد میں یہ اب تک کا سب سے بڑا اضافہ ہے۔ بھارت میں گزشتہ پانچ دنوں سے روزانہ مسلسل دو لاکھ سے بھی زیادہ نئے کورونا کیسز دیکھنے میں آتے رہے ہیں۔
اس دوران مزید 1619 افراد اس وبا کی وجہ سے انتقال بھی کر گئے۔ بھارت میں اس وبا کے متاثرین کی تعداد اب ڈیڑھ کروڑ سے بھی زیادہ ہو گئی ہے جبکہ ایک لاکھ 78 ہزار افراد اب تک اس مہلک وائرس کے باعث ہلاک ہو چکے ہیں۔
اتوار کے روز بھارتی حکومت نے آکسیجن کی فراہمی کی لیے ایک خصوصی ریل گاڑی چلانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ آکسیجن کی شدید قلت پر قابو پانے کے لیے جو آکسیجن صنعتی شعبوں کو مہیا کی جاتی ہے، وہ بھی اب ہسپتالوں کو فراہم کرنے کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔
اس سے قبل کئی ریاستی حکومتوں نے ہسپتالوں میں آکسیجن کی شدید کمی اور مناسب تعداد میں ویکسین موجود نا ہونے کی شکایت کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی کی حکومت سے فوری طور پر اقدامات کا مطالبہ کیا تھا۔
گزشتہ چند روز سے ملک کے مختلف حصوں میں ہسپتالوں کے باہر کووڈ 19 کے سینکڑوں مریضوں کو اپنے لیے بیڈ حاصل کرنے کی جدوجہد کرتے ہوئے دیکھا گيا۔ اس سے بھی زیادہ پریشان کن اور افسوس ناک مناظر وہ تھے، جن میں ہسپتالوں کے اندر مریض آکسیجن کے لیے ترس رہے تھے۔
بنکاک کے واٹ خلونگ توئی اسکول میں پڑھنے والے تقریباﹰ 250 طلبا کلاس کے دوران پلاسٹک ڈبوں میں بیٹھتے ہیں اور انہیں پورا دن اپنے چہرے پر ماسک بھی پہننا پڑتا ہے۔ ہر کلاس روم کے باہر صابن اور پانی رکھا جاتا ہے۔ جب طلبا صبح اسکول پہنچتے ہیں تو ان کا جسمانی درجہ حرارت بھی چیک کیا جاتا ہے۔ اسکول میں جولائی کے بعد سے انفیکشن کا کوئی نیا کیس سامنے نہیں آیا۔
کئی سرکردہ شخصیات نے سوشل میڈیا پر اپنے تجربات بھی شیئر کیے کہ کس طرح اپنے کسی نا کسی رشتے دار کے لیے ہسپتال میں کوئی بیڈ حاصل کرنے یا پھر آکسیجن کی دستیابی کی ان کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہو رہی ہیں۔
ممبئی، دہلی، لکھنؤ، ریاست کرناٹک اور گجرات میں حکام پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ جس تناسب سے کورونا کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے، ان شہروں اور ریاستوں میں تمام ہسپتال اور دیگر طبی ادارے گنجائش سے زیادہ بھر چکے ہیں اور اب وہاں مزید مریضوں کی دیکھ بھال کی گنجائش باقی نہیں رہی۔
اس دوران دارالحکومت دہلی میں ایک ہفتے کے لیے مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا گيا ہے جو آج 19 اپریل کی رات سے شروع ہو رہا ہے۔ دہلی میں ہفتے اور اتوار کے دنوں میں پہلے سے ہی لاک ڈاؤن تھا جبکہ رات کا کرفیو بھی گزشتہ ایک ہفتے سے جاری تھا۔ تاہم اس کے باوجود گزشتہ 24 گھنٹوں میں 25 ہزار سے بھی زیادہ نئے کیسز سامنے آئے جس کے بعد ریاستی حکومت کو یہ نیا قدم اٹھانا پڑا۔
راجستھان، بہار اور تامل ناڈو جیسی متعدد ریاستوں نے بھی اپنے ہاں رات کے کرفیو جیسے پابندیاں عائد کی ہیں۔
اسی دوران حزب اختلاف کی جماعتوں نے کورونا وائرس کی وبا کے حوالے سے حکومتی حکمت عملی پر شدید نکتہ چینی کی ہے۔ کانگریس پارٹی کا کہنا ہے کہ مودی حکومت نے گزشتہ برس اسی بحران سے کوئی سبق نا سیکھا اور اسی لیے اس وقت کا ہسپتالوں کے بھر جانے اور آکسیجن کی قلت کا بحران اب شدید تر ہو گيا ہے۔
پارٹی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ ہسپتالوں کی حالت بہتر بناتے ہوئے ان میں توسیع کرتی تاکہ آج جو مریض بستروں کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں، انہیں یہ دن دیکھنے نا پڑتے، ’’گزشتہ برس بھی ہسپتالوں میں جگہ کی کمی اور آکسیجن کی قلت کا بحران پیدا ہوا تھا۔ اس سے حکومت نے بالکل کوئی سبق نہیں سیکھا۔‘‘
ایک بڑا حلقہ حکمران جماعت بی جے پی پر اس وجہ سے بھی تنقید کرتا رہا ہے کہ کورونا کی اتنی شدید لہر کے باوجود وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے ریاستی انتخابات کے لیے اپنی انتخابی مہم بند نا کی اور اب بھی بڑی بڑی ریلیوں سے خطابات میں مصروف ہیں۔
اس کے برعکس راہول گاندھی نے ریاست مغربی بنگال کے اسمبلی انتخابات سے متعلق اپنی تمام عوامی ریلیوں کو منسوخ کر دیا ہے اور ریاستی وزير اعلیٰ ممتا بینرجی نے بھی کولکتہ میں انتخابی مہم نا چلانے کا اعلان کیا ہے۔ تاہم مرکزی وزير داخلہ امیت شاہ آج بھی انتخابی جلسوں میں حصہ لے رہے ہیں۔
برطانوی وزير اعظم بورس جانسن کا 26 اپریل کو بھارت کا ایک روز دورہ پہلے سے طے تھا تاہم برطانوی حزب اختلاف کی جماعت لیبر پارٹی نے کورونا وائرس کی وبا کے پیش نظر اس دورے کو ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
لیبر پارٹی کے ایک رہنما اسٹیو ریڈ نے آج ہی کہا تھا، ’’میں یہ نہیں سمجھ پا رہا کہ آخر وزیر اعظم بھارتی حکومت کے ساتھ زوم پر اپنی بات چیت کیوں نہیں کر سکتے۔ وزیر اعظم کو ایک مثال قائم کرنا چاہیے۔ میں تو بھارت کا دورہ کرنے کے بجائے زوم میٹنگ کرنے کو ترجیح دوں گا۔‘‘ ایک برطانوی وزير کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم بورس جانسن نے کورونا کے حفاظتی ٹیکے لگوا لیے ہیں اور اس لیے اب وہ بھارت کا دورہ کر سکتے ہیں۔
اس بحث کے تناظر میں آج پیر کو قبل از دوپہر لندن سے ملنے والی رپورٹوں میں کہا گیا کہ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے اب کووڈ انیس کی وجہ سے اپنا اگلے ہفتے کے اوائل کے لیے طے شدہ دورہ بھارت منسوخ کر دیا ہے۔