چاڈ (اصل میڈیا ڈیسک) صدر ادریس دیبی کی ہلاکت کے بعد افریقی ملک چاڈ میں فوج نے حکومت اور پارلیمان توڑ کر کرفیو لگا دیا ہے اور ملک کی سرحدیں بند کر دی گئی ہیں۔
ٹی وی پر فوج کے جنرل نے ایک اعلامیے میں کہا گیا کہ صدر کی موت میدان جنگ میں وطن کے دفاع میں لڑتے ہوئے ہوئی۔ حکام نے ان کی ہلاکت کے حوالے سے کوئی تفصیل جاری نہیں کی۔
اڑسٹھ سالہ صدر ادریس دیبی تیس سال سے اقتدار میں تھے۔ ان کا شمار افریقہ کے سینئر حکمرانوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے حال ہی میں چھٹی بار انتخابات میں حصہ لیا تھا اور گزشتہ روز کے عبوری نتائج کے مطابق وہ پھر الیکشن جیت چکے تھے۔
سرکاری اعلامیے کے مطابق اقتدار اب ملڑی کونسل نے سنبھال لیا ہے، جس کی قیادت صدر ادریس کے صاحبزادے جنرل محمد دیبی کر رہے ہیں۔ اعلان میں کہا گیا ہے کہ یہ فوجی کونسل اگلے اٹھارہ ماہ تک ملک کا نظم و نسق چلائے گی، جس کے بعد ملک میں ‘آزاد اور جمہوری‘ انتخابات کرائے جائیں گے۔
صدر ادریس دیبی خود بھی 1990 میں ایک مسلح فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار میں آئے تھے۔ وہ لمبے عرصے سے فرانس اور دیگر مغربی طاقتوں کے اتحادی رہے اور افریقہ کے ساحل خطے میں مسلح شدت پسند گروہوں کے خلاف برسرپیکار رہے۔
اپریل گیارہ کے حالیہ انتخابات میں بھی انہوں نے خطے میں امن و امان قائم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
چاڈ کے پاس تیل کے خاصے ذخائر ہیں اور بعض قوتیں ان کی طرز حکمرانی اور تیل سے متعلق پالیسیوں سے خائف تھیں۔
سن 2016 سے سابق فوجیوں پر مشتمل باغیوں کے ایک مسلح گروہ نے چاڈ کی لیبیا کے ساتھ سرحد پر مسلح ٹھکانے قائم کر رکھے تھے، جہاں سے وہ چاڈ میں حکومت کی تبدیلی کے لیے کارروائیاں کرتے رہے۔
بعض اطلاعات کے مطابق صدر ادریس اس گروہ کے خلاف برسرپیکار فوجیوں کے دورے پر تھے، جب وہ حملے کی زد میں آ گئے۔
چاڈ کی سرحدیں نائجیریا سے بھی ملتی ہیں۔ پچھلے ماہ عسکریت پسند تنظیم بوکوحرام نے دونوں ملکوں میں الگ الگ حملے کر کے ڈیڑھ سو سے زائد فوجیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ بوکو حرام نے یہ حملہ لاک صوبہ میں بوما جزیرہ نما علاقے میں کیا، جس کی سرحدیں نائجر اور نائجیریا سے ملتی ہیں۔