قیامِ پاکستان کا معرکہ ایک ایسا معرکہ ہے جس میں بیم ورجاء کے کئی لمحے آئے اور گزر گے لیکن قوم اپنے ہدف سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹی کیونکہ اس کی قیادت ایک ایسی ہستی کے ہاتھوں میں تھی جس نے جھکنا ، ڈرنا اور بکنا نہیں سیکھا تھا۔١٩٠٦ میں مسلم لیگ کے قیام سے مسلمانوں کے حقوق کا جو نعرہ بلند کیا گیا تھا اس کا منطقی نتیجہ ایک علیحدہ قوم کے قیام کی صورت میں ہی بر آمد ہو نا تھا لیکن اس کے بانیوں میں سے کسی کے ذہن میں علیحدگی کا کوئی تصور پیدا نہ ہوا۔شائد حالات کے جس جبر کا وہ شکار تھے اس میں ایسی سوچ کا ابھرنا ممکن نہیں تھا۔تمام قائدین متحدہ ہندوستان کے اندر رہتے ہوئے مسلمانوں کے حقوق کو یقینی بنانے کے خواب سجائے ہو ئے تھے جو زمینی حقائق کے منافی تھے۔
سر سید احمد خان، نواب وقارالملک اور نواب محسن الملک کا مطمع نظر مسلمانوں کی حالتِ زار کو بدلنا اور ان کے حقوق کو یقینی بنانا تھا لیکن بدقسمتی سے متحدہ ہندوستان میں آزادی کے بعد ان حقوق کا مطالبہ انگریزوں کی بجائے ہندوئوں سے کرنا پڑنا تھا کیونکہ وہ اکثریت میں تھے اور جمہوریت میں اکثریت کو فیصلہ سازی کے اختیارات تفویض ہو تے ہیں۔ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل بالکل تاریک ہو جانا تھاکیونکہ ہندوئو ںکا مطمع نظر مسلمانوں کی بیخ کنی کرنا ،اور ان پر جبر و کراہ کے پہاڑ توڑ کر اپنی ہزار سالہ غلامی کا حساب بے باق کرنا تھا۔مسلمانوں کی پسماندگی ،غر بت ،ے بسی اور لاچاری مسلمان زعماء کو خون کے آنسو رلاتی رہتی تھی لیکن ان کے پاس اس کا کوئی ٹھوس حل نہیں تھا۔انھیں کیا خبر تھی کہ ان کے ہاتھوں سے بنائی گئی مسلم لیگ کے قیام کے محض ٤١ سال بعد برِ صغیر دو قومی نظریہ کی ضربوں سے پاش پاش ہو جائیگا اور ایک مفکر کا ایک خطبہ پورے برِ صغیر کے جغرافیہ کو بدل کر رکھ دیگااور مسلمانوں کا مستقبل ایک علیحدہ اسلامی ریاست میں محفوظ ہو جائے گا؟
ایک بات جو بانیانِ مسلم لیگ کے اذہان میں تھی وہی بات علامہ اقبال کے ذہن میں بھی تھی گویا کہ دونوں میں قدرِ مشترک مسلمانوں کے حقوق کی نگہداشت اور محفوظ راہ کی تلاش تھی ۔اسلام کی نشاة ثا نیہ کے دونوں علمبردار تھے لیکن فکری راہیں جدا جدا تھیں۔ وہ نکتہ جہاں تما م قائدین کی فکری اپرواز تھم گئی تھی وہی سے علامہ اقبال کی فکری بلندی کا آغاز ہوا تھا۔یہ بات سب کے حیطہِ ادراک سے ماوراء تھی کہ ایک دن برصغیر پاک وہند کے مسلمان ایک علیحدہ قوم کی حیثیت سے اپنے مسائل سے خود نبر آزما ہوجائیں گے ۔ ایک علیحدہ مسلم قوم کا تصور ہی وہ بنیاد ی فکر تھی جس کا اعلان الہ آباد کے سالانہ جلسہ میں ہوا تھا۔چشمِ تصور سے د یکھئے کہ ١٩٣٠ میں تاج برطانیہ کا اقتدار نصف النہار پر تھا اور آدھی دنیا پر اس کی حکومت کا پرچم لہرا رہا تھا لیکن ایک درویش صفت انسان الہ آباد کے جلسہ میں مسلم حاکمیت کا فلسفہ پیش کر کے تاریخ کو اپنے سامنے سرنگوں کر رہاتھا ۔اس کی فکر کی بلند پروازی کو کیا کوئی دوسرا انسان پہنچ سکتاتھا ؟زائچے بنانا، تبصرے کرنا،اعتراضات کی بارش کرنا، الزامات دھرنا،ناک بھوں چڑھانا،کیڑے نکالنا اور عیب جوئی کرنا ایک علیحدہ موضوع ہے لیکن پوری دنیا کے سامنے کھلے میدان میںایک نیا نظریہ پیش کر کے اس کے ثمرات سمیٹنا غیر معمولی اظہاریہ تھا جو اس وقت سب کے سروں سے گزر گیا تھا۔چشمِ تصور سے دیکھئے کہ جب یہ خطبہ دیا گیا تھا اس وقت مسلمانوں میں کوئی مرکزی لیڈر شپ نہیں تھی،کوئی منظم جماعت نہیںتھی،کوئی عوامی دبائو نہیںتھا،کوئی علیحدگی کا رحجان نہیںتھا،،کوئی خواب نہیںتھا،کوئی منزل نہیں تھی ،کوئی جوش و جذبہ نہیںتھا ، کوئی قافلہ سالار نہیںتھا،کوئی ہدف نہیںتھالیکن پھر بھی ایک دیدہ ور اعلان کر رہا تھا کہ میری نگاہیں ایک اسلامی مملکت کو بنتے ہوئے دیکھ رہی ہیں اور کسی میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ اسے بننے سے روک سکے۔
برِ صغیر میں تین تحریریں انتہائی اہمیت کی حامل تھیں جن کی بنیاد پر برِ صغیر کی آزادی کی جنگ لڑی گئی تھی۔قائدِ اعظم محمد علی جناح کے چودہ نکات ، پنڈت جواہر لال نہرو کی نہرو رپورٹ اور علامہ اقبال کا خطبہ الہ آباد ۔ تینوں تحریریںکمال کی تحریریں تھیں اور حقائق کی آئینہ دار تھیں لیکن تائیدِ ایزدی سے کامیابی کا سہرا اس خطبہ کے سر بندھا جسے علامہ اقبال نے الہ آباد میں پیش کیا تھا۔قائدِ اعظم کے چودہ نکات کے جواب میں پنڈت جواہر لال نہرو نے نہرو رپورٹ پیش کی جو اس بات کا واشگاف اعلان تھی کہ برِ صغیر میں صرف ایک ہی سیاسی قوت ہے اور اس سیاسی قوت کا نام کانگریس ہے ۔جسے برِ صغیر میں رہنا ہے اسے ہند وئوں کی مرضی،منشاء اور رائے کے سامنے سر نگوں ہو نا ہو گا۔ہندوستان کی حاکمیت صرف ہندوئوں کے ہاتھوں میں مرتکز ہو گی اور مسلمان ان کے رحم کرم پر ہوں گے ۔مسلمانوں کی قسمت کا فیصلہ ہندو قیادت کریگی ۔ اب یہ بات کسی کو قابلِ قبول ہے یا کہ نہیں ہے اس کا فیصلہ اسے خود ہی کرنا ہے۔یہ ایک اسی صورتِ حال تھی جو مسلمانوں کو کسی بھی صورت قابلِ قبول نہیں تھی۔وہ انگریز کے بعد بت پرست قوم کی غلامی کا طوق پہننے کیلئے کسی بھی صورت تیار نہیں تھے ۔اب ضروری تھا کہ نہرو رپورٹ کا جواب کسی ایسی شخصیت کے ہاتھوں دیا جاتا جس کا قد کاٹھ،علمی وجاہت اورادبی مقام پنڈت جواہر لال نہرو سے بلند ہوتا،جس کے علمی تفاخر کا پورے ہندوستان میں کوئی ثانی نہ ہوتا،جس کے الفاظ کی تکریم ہوتی، ہر کوئی اس کے افکار کا مداح ہو تا،اس کے علمی مقام کا قدردان ہوتا اور اس کی دانش کے پھولوں کی خوشبو کا اسیر ہوتا۔،۔
اس زمانے میں قائدِ اعظم محمد علی جناح سیاسی گروہ بندی کی وجہ سے انگلینڈ میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے لیکن وہ چاہتے تھے کہ مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی صدارت کوئی ایسی نامور شخصیت کرے جو نہرو رپورٹ کو دلائل و منطق کی بنیاد پر بے اثر کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں میں جذبہ ِ حریت کو تیز کرے لہذا ان کی نگاہیں اپنے دیرینہ دوست علامہ اقبال پر مرکوز ہو گئیں۔اب انھیں کیا خبر تھی کہ علامہ اقبال کے ذہن میں ایک ایسی ریاست کے قیام کا نظریہ ہو گا جس سے خود قائدِ اعظم بھی نا آشنا تھے اور جس میں ان کے سیاسی بیانیہ کی نفی بھی تھی ۔یہ انتہائی غیر معمولی کارنامہ تھا کہ ایک فلاسفر کی فکرو دانش تقسیم ِ ہند کی بنیاد بنی، سوچتے جائیے اور حیرت میں گم ہو تے جائیے کہ جب کسی قسم کی علیحدگی کے کوئی آثار ر نہیں تھے اس وقت ایک دیدہ ور نے علیحدہ مسلم ریاست کا تصور پیش کر کے سب کو ورطہِ حیرت میں گم کر دیا تھا۔
یقین مانئے اتنا بڑا سیاسی تصور کسی کیلئے بھی قابلِ قبول نہیں تھا۔کوئی ایک قائدایسا نہیں تھا جس نے اس تصورکی مدح سرائی کی ہو؟قائدِ اعظم محمد علی جناح نے بھی اسے علامہ اقبال کے ذاتی خیالات کہہ کر جھٹک دیا تھا لہذا کسی دوسرے انسان سے کیا توقع ہو سکتی تھی کہ وہ اس خطبہ کی تہہ میں چھے ہو ئے گوہر تک پہنچ سکے گا؟قائدِ اعظم کے ناقدین ان پر الزام دھرتے ہیں کہ وہ بہت ضدی ، ھٹ دھرم اور انا پرست تھے اور کسی کی نہیں سنتے تھے بالکل لغو اور بے بنیاد ہے کیونکہ اگر ایسا ہو تاتو پھر قائدِ اعظم متحدہ ہندوستان کے اپنے سیاسی بیانیہ کو داغِ مفارقت دے کر اپنے دوست کے فلسفہ کا علم کیوں کر بلند کرتے ؟ ٢٣مارچ ١٩٤٠ کی قرار داد در حقیقت قائدِ اعظم کی جانب سے علا مہ اقبال کی عظمت کوسلام تھا ۔اور جس دن قائدِ اعظم نے اقبال کے فلسفہ سے اظہارِ محبت کیا برِ صغیر کے کروڑوں انسانوں نے قائدِ اعظم پر اپنے جان و مال قربان کرنے کا عہد کر کے ان کی عظمت کو سلام پیش کیا اور یوں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت قائم ہونے کا معجزہ سر انجام پایا ۔فکری تبدیلی نے معمولوں کو شہباز بنایا، نظریہ نے حقیقت کا جامہ پہنا اور یہی اقبال کی عظمت تھی ۔اس عظمت کو قائدِ اعظم نے پہچا نا اور پھر قائدِ اعظم کی عظمت کو عوام نے ساتویں آسمان تک پہنچایا۔اقبال کی عظمت قائد کی عظمت قرار پائی جس کا ماحصل پاکستان تھا ۔،۔اقبال کی رباعی سنئیے اور سر دھنئیے ۔،۔
( سرودِ رفتہ باز آئد کہ نہ آئد ۔،۔ نسیمِ از حجاز آئد کہ نہ آئد ۔۔۔،،،،،۔۔ سر آمد روزگارِ ایک فقیرے ۔،۔ دگر دانائے راز آئد کے نہ آئد )۔
Tariq Hussain Butt
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال۔۔