بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) بین الاقوامی سطح پر مذہبی آزادی پر نگاہ رکھنے والے ایک امریکی حکومتی کمیشن نے بھارت کو مسلسل دوسرے برس ‘خاص تحفظات کے حامل ملکوں‘ کی فہرست میں شامل کرنے کی سفارش کی ہے۔
یونائٹیڈ اسٹیٹ کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیئس فریڈم(یو ایس سی آئی آر ایف)نے سن 2021 کی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت میں مذہبی آزادی کی منظم انداز میں خلاف ورزی ہوئی ہے۔
بھارت نے امریکی کمیشن کی رپورٹ پر فی الحال کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ تاہم نیشنل لا یونیورسٹی حیدرآباد کے وائس چانسلر پروفیسر فیضان مصطفی نے اس رپورٹ کے حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”حکومت کو سفارتی سطح پر اس رپورٹ کو مسترد کرنے کا حق حاصل ہے لیکن رپورٹ میں جن امور کی نشاندہی کی گئی ہے انہیں بھارت میں مذہبی آزادی کی صورت حال کا جائزہ لینے کے ایک موقع کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔”
گزشتہ برس بھارت نے کمیشن کی رپورٹ پر سخت برہمی کا اظہار کیا تھا۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا تھا، ”ہم یو ایس سی آئی آر ایف کی سالانہ رپورٹ میں بھارت کے حوالے سے اس کے تاثرات کو مسترد کرتے ہیں۔ بھارت کے خلاف اس طرح کے جانبدارانہ اور بے بنیاد تبصرے نئے نہیں ہیں۔ لیکن اس مرتبہ غلط بیانی نئی سطح کو پہنچ گئی ہے۔ ہم اس تنظیم کو ہی خاص تحفظات کا حامل سمجھتے ہیں اور اسی کے مطابق سلوک کریں گے۔”
اس موقع پر پروفیسر مصطفی کا مشورہ ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ ماب لنچنگ کے خلاف سخت قانون لائے، جس کا مشورہ سپریم کورٹ نے بھی دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شہریت ترمیمی قانون میں تمام اقلیتوں کو شامل کیا جانا چاہیے۔
دہلی فسادات میں مسلمانوں کا کافی جانی و مالی نقصان ہوا تھا۔
یو ایس سی آئی آر ایف نے سال 2021 کی رپورٹ میں جن امور پر انتہائی تشویش کا اظہار کیا ہے، ان میں شہریت ترمیمی قانون سب سے اہم ہے۔ اس میں کہا گیا ہے،”دہلی میں ہونے والے فسادات کے دوران ہندو ہجوم کو کلین چٹ دی گئی اور مسلمانوں پر انتہائی طاقت کا استعمال کیا گیا۔” رپورٹ میں کہا گیا ہے،”آسام میں تیار کیے گئے بڑے حراستی مراکز آنے والے دنوں میں مزید تباہی پھیلائیں گے۔”
بین مذاہب شادیوں کو روکنے کے لیے اترپردیش اور مدھیہ پردیش میں لاگو کیے گئے قوانین پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے امریکی کمیشن کا کہنا ہے،”بین مذاہب رشتوں کو ہدف بنایا گیا ہے اور اسے غیر قانونی بنانے کی وجہ سے غیر ہندوؤں پر ہونے والے حملوں میں مزید اضافہ ہو گیا ہے اور ان کی گرفتاریاں بھی بڑی تعداد میں ہو رہی ہیں۔”
گزشتہ برس مارچ میں نئی دہلی میں تبلیغی جماعت کے مرکز کے خلاف حکومتی کارروائیوں اور بیانات کے سلسلے میں رپورٹ میں کہا گیا،”کووڈ انیس وبا کے آغاز میں اپنے پیٹرن کو جاری رکھتے ہوئے حکومت کے نمائندوں اور عہدیداروں نے نفرت انگیز بیان بازی کی اور مذہبی اقلیتوں (مسلمانوں) کو نشانہ بنایا گیا۔”
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت منافرت پھیلانے والوں کے خلاف ٹھوس کارروائی کرنے میں ناکام رہی ہے۔
خیال رہے کہ مرکزی حکومت اور دہلی سرکار دونوں گزشتہ برس کورونا وائرس کی وبا شروع ہونے کے بعد روزانہ متاثرین کی تعداد بتاتے وقت یہ بھی بتاتے تھے کہ تبلیغی جماعت کی وجہ سے کتنے فیصد لوگ کووڈ انیس سے متاثر ہوئے ہیں۔ تاہم ان دنوں ہردوار میں کمبھ میلے میں لاکھوں کی تعداد میں ہندوؤں کی موجودگی کے باوجود حکومتیں اس کا کوئی ذکر نہیں کر رہی ہیں۔
بھارت کی مختلف عدالتوں نے تبلیغی جماعت کو نہ صرف پوری طرح کلین چٹ دے دی بلکہ حکومت اور بالخصوص پولیس کے رویے پر سخت تنقید بھی کی۔
رپورٹ میں مزید الزام لگایا گیا ہے کہ بابری مسجد کے انہدام میں ملوث تمام ملزمین کا بری ہوجانا حکومت کی نااہلی کا ثبوت ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت منافرت پھیلانے والوں اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد کو ہوا دینے والوں کے خلاف بھی کوئی ٹھوس کارروائی کرنے میں ناکام رہی ہے۔
یو ایس سی آئی آر ایف نے سفارش کی ہے کہ بھارت کو بھی دیگر چودہ ملکوں کے ساتھ ‘خاص تحفظات کے حامل ملک‘ کی فہرست میں شامل کیا جائے۔ دیگر ممالک میں میانمار، چین، اریٹیریا، ایران، نائیجریا، شمالی کوریا، پاکستان، سعودی عرب، تاجکستان، روس، شام، ویت نام اور ترکمانستان شامل ہیں۔