انڈونیشیا (اصل میڈیا ڈیسک) انڈونیشیائی نیوی کا دو روز سے اپنی سمندری آبدوز سے رابطہ منقطع ہے۔ آبدوز پر عملے کے 53 ارکان سوار ہیں، جن کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔
انڈونیشیا کی بحریہ کا ”کے آر آئی ننگلا چار سو دو‘‘ نامی آبدوز سے آخری بار رابطہ بدھ کے روز جزیرہ بالی کے قریب ہوا تھا۔ حکام کے مطابق ان دو دنوں میں آبدوز میں آکسیجن تیزی سے ختم ہو رہی ہے اور عملے کو بچانے کے لیے وقت کم اور مقابلہ سخت ہے۔
خدشہ ہے کہ آبدوز سمندر میں اتنی گہرائی میں چلی گئی ہو کہ اب اس سے رابطہ یا اس کی بحالی ممکن نہ ہو۔
جس علاقے میں آبدوز لاپتہ ہوئی ہے، وہاں سمندر میں تیل بہتا ہوا پایا گیا ہے۔ یہ بھی خدشہ ہے کہ آبدوز فیول ٹینک کو نقصان پہنچنے کی وجہ سے ڈوب گئی ہو۔ تاہم ماہرین نے ابھی اس پر کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی اور آبدوز غائب ہو جانے کی ممکنہ وجوہات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
نیوی حکام کے خیال میں یہ بھی ممکن ہے کہ آبدوز میں الیکٹریکل خرابی پیدا ہو گئی ہو، جس کے باعث عملہ ہنگامی حالت کا نظام حرکت میں نہ لا سکا ہو۔
ایک بیان میں انڈونیشیا کی فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ آبدوز پر مقامی وقت کے مطابق ہفتے کی صبح تین بجے تک کی آکسیجن موجود ہے۔ ترجمان نے کہا کہ آبدوز کی تلاش کے لیے فوج تب تک اپنا پورا زور لگائے گی۔
اس ہمہ گیر ریسکو آپریشن کے لیے نیوی سمیت 24 بحری جہاز حرکت میں لائے گئے ہیں۔ آسٹریلیا کے دو جنگی جہاز اور ایک ہیلی کاپٹر آبدوز کی تلاش میں حصہ لے رہے ہیں۔ امریکا نے بھی انڈونیشیا کی حکومت کی درخواست پر اپنے بحری اثاثے روانہ کیے ہیں۔ سنگاپور اور ملائیشیا پہلے ہی مدد کے لیے اپنے جہاز بھیج چکے ہیں جبکہ فرانس اور جرمنی نے بھی انڈونیشیا کو مدد کی پیشکش کی ہے۔
جمعرات کو ٹی وی پر قوم سے خطاب میں صدر جوکو ویدودو نے کہا کہ ”ہماری پہلی ترجیح عملے کے 53 افراد کی بحفاظت بازیابی ہے۔ میں عملے کے گھر والوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ میں آپ کے جذبات سمجھ سکتا ہوں۔ ہم عملے کے تمام افراد کو بچانے کے لیے اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
یہ آبدوز جرمنی نے تعمیر کی تھی اور یہ سن انیس سو اکیاسی سے انڈونیشیا کے زیر استعمال ہے۔ ماہرین کے مطابق اس آبدوز میں 200 میٹر (655 فٹ) گہرائی میں تیرنے کی صلاحیت ہے۔
تاہم نیوی کے خیال میں آبدوز کسی طرح 600 سے 700 میٹر (2000 سے 2300 فٹ) گہرائی میں چلی گئی، جہاں پانی کا پریشر اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ اس قسم کی آبدوز برداشت نہیں کر سکتی۔