یروشلم (اصل میڈیا ڈیسک) گزشتہ رات یروشلم میں ہونے والی پرتشدد جھڑپوں کے نتیجے میں ایک سو سے زائد فلسطینی زخمی ہو گئے ہیں جبکہ پولیس نے چوالیس افراد کو گرفتار کرنے کی تصدیق کی ہے۔
یروشلم میں رمضان کے آغاز سے جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے لیکن گزشتہ رات یہ ہنگامے سے سب سے زیادہ شدید تھے۔ گزشتہ شب بیس اسرائیلی پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں۔ ان ہنگاموں کا آغاز اسرائیلی حکام کی طرف سے افطاریوں کے حوالے سے عائد کردہ پابندیوں کے بعد ہوا تھا۔ یروشلم میں مسلمان، مسیحی اور یہودی آباد ہیں اور موجودہ جھڑپوں کا مرکز بھی یہی شہر بنا ہوا ہے۔ گزشتہ دس روز ہے تقریبا ہر رات ہی اسرائیلی سکیورٹی فورسز اور فلسطینیوں کے درمیان جھڑپیں ہو رہی ہیں۔
رمضان کے آغاز پر اسرائیلی پولیس نے یروشلم کے قدیم حصے میں واقع دمشق گیٹ کے ارد گرد رکاوٹیں کھڑی کر دی تھیں۔ روایتی طور پر فلسطینی مسلمان ہر سال رمضان میں وہاں افطار کرتے ہیں۔ گزشتہ شام وہاں سینکڑوں فلسطینی جمع ہوئے، جنہیں منتشر کرنے کے لیے پولیس نے واٹر کینن اور اسٹین گرینیڈ فائر کیے۔ جواب میں فلسطینیوں نے بھی پولیس کی جانب پتھر اور بوتلیں پھینکیں۔
انتہاپسند یہودیوں کی ریلی دوسری جانب گزشتہ روز ہی انتہائی دائیں بازو کے یہودیوں کے گروپ ‘لاحافا‘ کے سینکڑوں اراکین نے دمشق گیٹ کی جانب مارچ کیا اور وہ ‘عربو یہاں سے نکل جاؤ‘ جیسے نعرے بلند کر رہے تھے۔ یہ احتجاج ٹک ٹاک کی اُس وائرل ویڈیو کے جواب میں تھا، جس میں کچھ فلسطینی لڑکے ایک مذہبی یہودی کو مار پیٹ رہے ہیں۔ اس کے جواب میں بھی ٹک ٹاک پر ایک ویڈیو شیئر کی گئی، جس میں یہودیوں کو مل کر فلسطینی مسلمانوں پر حملہ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
یروشلم پولیس نے انتہاپسند یہودیوں کے مارچ کو روکنے کے لیے بھی دمشق گیٹ سے پہلے ہی رکاوٹیں کھڑی کر رکھی تھیں۔ پولیس نے انہیں بھی پیچھے دھکیلنے کے لیے واٹر کینن اور اسٹین گرینیڈ فائر کیے۔ مبصرین کے مطابق آئندہ روز میں یہ جھڑپیں مزید شدت اختیار کر سکتی ہیں۔
اسرائیل نے سن 1967ء کی جنگ میں مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا تھا لیکن زیادہ تر بین الاقوامی برادری اسے ابھی تک مقبوضہ علاقہ ہی تسلیم کرتی ہے۔ فلسطینی مشرقی یروشلم کو اپنی مستقبل کی ریاست کا دارالحکومت قرار دیتے ہیں۔ مشرقی یروشلم کا تنازعہ اس قدر شدید ہے کہ امن عمل ایک عشرہ قبل اسی وجہ سے تعطل کا شکار ہو گیا تھا۔