عام طور پر یہی مشہور ہے کہ کرونا وائرس چین کے شہر ووہان سے پھیلا کیونکہ وہاں لوگ زندہ چمگاڈروں کا سوپ پینے کے بے حد شوقین ہیں اس لئے غالب خیال یہی ہے کہ یہ وائرس اسی پرندے کے باعث وائرل ہو پھر پوری دنیا میں پھیلتا چلا گیا لیکن اب ثابت ہو چکا ہے کہ یہ پورا سچ نہیں تھا کیونکہ یہ آپ کیلئے انکشاف ہو سکتا ہے کہ کورونا وائرس کا پہلا کیس 31 جنوری2019ء کو سامنے آیا، لیکن وسط جنوری میں برطانیہ کی سسیکس کاؤنٹی میں ایک ایسا کنبہ موجود تھا جو ناول کورونا وائرس کا شکار ہوا۔ اس خاندان کے افراد کبھی کسی چینی سے رابطے میں نہیں آئے، تاہم دسمبر 2019 ء میں ان کی ملاقات چند امریکیوں سے ضرور ہوئی تھی۔پھربھی اس کا جواب کون دے گا کہ کرونا وائرس کہاں سے آیا؟ اس حوالے سے سائنسی انداز سے سوچنے اور سائنسی طریقہ کار کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس سے قطع نظر کہ وائرس کی ابتداء کہاں سے ہوئی؟ اسے کسی نسل، رنگ یا علاقے سے منسوب نہ کریں۔ یہی عالمی اتفاق رائے اور انسانی ضمیر کی متفقہ آواز ہے۔
ایک مرتبہ برٹش ایسوسی ایشن آف اوٹرہینولرینگولوجی کے ماہرین نے کہا تھا کہ اگرآپ کی ذائقے اور سونگھنے کی حس کم یا ختم ہو گئی ہے تو غالب امکان ہے کہ آپ کے جسم میں کرونا وائرس پہنچ چکا ہے۔ اس لئے ٹیسٹ کروانے کی فوری ضرورت ہے کیونکہ ماہرین کے مطابق سونگھنے کی صلاحیت یا زبان سے ذائقہ ختم ہونے کے بعد کسی بھی وقت متاثرہ شخص کو بخار اور کھانسی جیسی علامات ظاہر ہو سکتی ہیں۔بہرحال 1967 ء سے اب تک 10 ایسی وبائیں پھیلی ہیں جن کے جرثومے جانوروں سے انسان میں داخل ہوئے۔ ان میں سے پانچ وبائیں چمگادڑوں میں پائے جانے والے وائرس سے پھیلیں۔ 1967ء میں یوگینڈا سے ایک وبا ء پھیلی جس نے 590 افراد کو متاثر کیا۔ ان میں سے 478 موت کے منہ میں چلے گئے۔ یہ انتہائی خطرناک تھی کیونکہ اس میں اموات کی شرح 81 فیصد رہی۔ اسے ماربرگ” کا نام دیا گیا جس کا وائرس چمگادڑ سے آیا تھا۔ 1976ء میں ایبولا” نامی وبا جمہوریہ کانگو سے پھیلی جس نے 33687 افراد کو متاثر کیا جن میں سے 14693 مر گئے۔ اس میں ہلاکتوں کی شرح 44 فیصد رہی۔ اس کا وائرس بھی چمگادڑ سے پھیلا۔ 1999ء میں ملائیشیا سے ایک وبا کا سبب بھی چمگادڑوں کی ایک قسم کو قرار دیا گیا، اسے نیپا” کہا جاتا ہے، اس سے 496 افراد متاثر ہوئے اور شرح اموات 53 فیصد رہی۔ 2002ء میں چین میں چمگادڑ اور کسی دوسرے جانور کے وائرس سے سارس” نے جنم لیا۔ اس سے 8098 افراد انفیکٹ ہوئے اور اموات کا تناسب 10 فیصد رہا۔ نئے کورونا وائرس (کووڈ19ـ) کے بارے میں بھی یہی خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی بنیادیں چمگادڑ اور پینگولین میں پیوست ہیں۔
ماہرین کا اتفاق ہے کہ انسانوں میں پھیلنے والی 75 فیصد متعدی امراض کی اساس جانور ہوتے ہیں جن میں چمگادڑ اور دوسرے میملز شامل ہیں۔ چمگادڑوں سے ریبیر (باؤلے پن) کا مرض بھی منتقل ہو سکتا ہے جو جان لیوا ہوتا ہے۔ جب چمگادڑ ریبیز کا شکار ہوتی ہے تو بالآخر موت کے منہ میں چلی جاتی ہے لیکن مرنے سے قبل وائرس دوسرے جانوروں اور انسانوں میں داخل کرنے کی استعداد کی حامل ہوتی ہے۔ ریبیز عموماً کاٹنے سے منتقل ہوتی ہے۔ یہ عمل بلاواسطہ اور بالواسطہ دونوں صورتوں میں ہو سکتا ہے۔ متاثرہ چمگادڑ اگر پالتو جانور کو کاٹے گی تو یہ اس میں منتقل ہو جائے گی اور پھر انسان میں مرض کے وائرس کی منتقل ہوجاتاہے متاثرہ جانور کے لعاب کے آنکھ، ناک، منہ یا زخم میں جانے سے بھی ہو سکتی ہے۔ تاہم انسانوں میں چمگادڑ سے باؤلے پن کی منتقلی کا امکان بہت ہی کم ہوتا ہے چمگادڑوں سے پھیلنے والا نظام تنفس کا ایک مرض ہسٹوپلازموسس کہلاتا ہے۔ یہ جانوروں، بشمول چمگادڑوں، کے فضلے والی زمین میں نمو پانے والی پھپھوندی یا فنگس سے ہوتا ہے۔
چمگادڑوں میں وائرس سنبھالنے” کی صلاحیت بہت زیادہ ہے۔ ایک چمگادڑ بیمار ہوئے بغیر کئی طرح کے وائرس کی پناہ گاہ ہو سکتی ہے۔ چمگادڑوں میں ایک ہی وائرس کا دوبارہ شکار ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے جبکہ انسانوں میں ایک بار حملہ آور ہونے والے وائرس کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہو جاتی ہے۔ چمگادڑوں میں کئی ایسے وائرس پائے جاتے ہیں جن کے مستقبل میں انسانوں میں داخل ہونے کا شبہ ہے۔ ان معلومات سے عمومی تاثر قائم ہوتا ہے کہ چمگادڑ ہم انسانوں کیلئے بہت ہی خطرناک ہے اور بیشتر انسان درست طور پر اس سے نفرت کرتے ہیں یا اس سے خوف کھاتے ہیں۔ یہ پورا سچ نہیں۔ چمگادڑ اور انسان اکثر دور دور رہتے ہیں۔ چمگادڑ عموماً دن ڈھلنے کے بعد شکار کے لئے نکلتی ہے جبکہ انسان کے یہ سستانے کا وقت ہوتا ہے۔ اگر انسان اور چمگادڑ اپنی اپنی حدود میں رہیں تو خطرہ بہت کم رہ جاتا ہے۔
چمگادڑیں انسان سے دور رہنے کو ترجیح دیتی ہیں لیکن انسان چمگادڑ سمیت مختلف جانوروں کے رہائشی علاقوں کو قبضے میں لینے کی راہ پر چل نکلا ہے جس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اب جنگل کم ہوتے جا رہے ہیں اور غیر آباد علاقوں میں انسانی آبادیاں بنتی جا رہی ہیں جس سے جنگلی حیات انسانوں کے قریب آ رہی ہے یاپھر ناپید ہو رہی ہے جوفطرت کے خلاف ہے لگتی کیونکہ عام طورپر اسے ایک مکروہ پرندہ سمجھا جاتاہے۔ بعض لوگ جنگلی حیات کا بلاوجہ شکار کرتے ہیں۔ بعض چمگادڑوں کا گوشت کھاتے یا ان کا سوپ پیتے ہیں۔جہاں تک چمگادڑ کا معاملہ ہے کھانا تو درکنار، ان کی قربت تک اچھی نہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حادثاتی طور پر چمگادڑ آپ کے گھر یا دفتر میں آ جائے، پھنس جائے یا زخمی ہو جائے تو اس کے پاس جانے اور اسے چھونے سے گریز کریں۔ شاید انسان کی چمگادڑوں اور دوسرے جانوروں کی دنیا میں بے جا مداخلت نے یہ دن دکھائے ہیں، ورنہ چمگادڑیں بھی دوسرے میملز کی طرح اپنی زندگی جیتی ہیں اور انسانوں کے لئے کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہیں کرتیں۔ چمگادڑوں کی زندگی کا اپنا دائرہ ہے۔ چمگادڑیں اڑنے استعداد رکھنے والی واحد میمل ہیں۔ یہ اڑنے کے ساتھ رات کو دیکھ” سکتی ہیں اور اپنے اندر پائے جانے والے گونج کے نظام سے اندھیرے میں راستہ تلاش کر لیتی ہیں۔
بعض علاقوں میں چمگادڑوں کی تعداد حیران کن حد تک زیادہ ہوتی ہے۔ اس کی ایک مثال میکسیکن فری ٹیلڈ چمگادڑ” کی ایک آبادی ہے۔ یہ قسم ریاست ہائے متحدہ امریکا سے میکسیکو اور جنوبی امریکا تک پائی جاتی ہے۔ ایمازون جنگل میں ان کی کثرت ہے البتہ ان کی سب سے بڑی تعداد ٹیکساس (امریکا) میں واقع بریکن غار میں ہے جہاں دو کروڑ چمگادڑیں رہتی ہیں۔ چمگادڑوں کے مختلف سائز ہوتے ہیں۔ دنیا میں سب سے بڑی چمگادڑوں میں فلائنگ فاکس” اور جائنٹ گولڈن کراؤنڈ فلائنگ فاکس” شامل ہیں جن کے ونگز پانچ فٹ سے زیادہ پھیل سکتے ہیں اور ان کا وزن ایک کلوگرام سے زائد ہو سکتا ہے۔ لاہور میں بڑی چمگادڑیں باغ جناح کے درختوں پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ حشرات اور پتنگے کھانے والی سب سے بڑی گنجی چمگادڑ” کا وزن 250 گرام ہوتا ہے۔ سب سے بڑی گوشت خور چمگادڑ سپیکٹرل چمگادڑ” ہے۔ اس کے ونگز دو فٹ تک پھیلتے ہیں۔
سوراخوں کی طرح ناک والی چمگادڑ بمبلیبی” تھائی لینڈ میں پائی جاتی ہے اور سب سے چھوٹے میملز میں سے ایک ہے۔ اس کے ونگز صرف چھ انچ تک پھیلتے ہیں اور اس کا وزن محض دو گرام ہوتا ہے۔ خصوصاً وہاںچمگادڑوں کی بہتات ہے۔ مثال کے طور پر مغربی افریقہ میں چمگادڑوں کی 100 کے قریب اقسام پائی جاتی ہیں۔ زیادہ تر چمگادڑیں حشرات اور پتنگے کھاتی ہیں جس کے باعث ان کی اہمیت انسانوں کے لئے بھی ہے۔ ان کے کھائے جانے والے حشرات اور پتنگوں کی تعداد حیران کن طور پر زیادہ ہوتی ہے۔ مثلاً ایک اندازے کے مطابق ٹیکساس میں پائی جانے والی میکسیکن فری ٹیلڈ چمگادڑیں” 10 ہزار ٹن حشرات اور پتنگے سالانہ کھاتی ہیں جس سے حشرات اور پتنگے حد سے زیادہ نہیں بڑھتے اور ماحول میں توازن قائم رہتا ہے۔ یہ پولی نیشن (زیرگی) اور بیجوں کے پھیلاؤ میں بھی کردار ادا کرتی ہیں۔ چمگادڑوں کی بعض اقسام پولن کھاتی اور پودوں کا رس پیتی ہیں۔بعض اقسام پھل کھاتی ہیں۔ پھل ہضم ہونے کے بعد یہ بیج دور کسی مقام پر خارج کرتی ہیں جہاں ایک نیا پودا اگ آتا ہے۔خونخوار یا ویمپائر چمگادڑیں مویشیوں کے لیے بعض علاقوں میں مسائل پیدا کرتی ہیں کیونکہ یہ ان میں چھوٹے چھوٹے زخم کر دیتی ہیں اور ان میں ریبیز اور مرض النوم (ٹرائی پانو سوما) جیسے امراض کا سبب بنتی ہیں۔
بعض دیگر اقسام کی چمگادڑیں بھی ریبیز اور دیگر وائرس لیے پھرتی ہیں۔ چمگادڑوں کی 1300 سے زائد اقسام میں سے صرف تین ہیں جو خون پی کر گزارہ کرتی ہیں۔ حشرات اور پتنگے کھانے والی چمگادڑوں کا فضلہ اب بھی بعض ممالک میں زرعی کھاد کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ بارود کی خاطر نائٹروجن اور فاسفورس حاصل کرنے کے لئے ان کے فضلے کو استعمال کیا جاتا رہا۔ امریکی جنگ آزادی میں اس مقصد کے لئے چمگادڑوں کا فضلہ استعمال ہوتا رہا۔ جہاں یہ رہتی ہیں وہاں چمگادڑوں کا فضلہ وقت کے ساتھ جمع ہوتا رہتا ہے۔ اس سے بہت سے آثار قدیمہ اور فاسلز محفوظ بھی ہوئے کیونکہ وہ اس کے نیچے دب گئے جنہیں بعد ازاں دریافت کر لیا گیا۔ کئی علاقوں میں چمگادڑیں کبھی کبھار گھروں اور بڑی عمارتوں میں بھی رہائش اختیار کر لیتی ہیں۔ ان کی وجہ سے شور اور گند کے ساتھ مخصوص بو بھی پیدا ہوتی ہے۔ مغربی ثقافت میں چمگادڑوں کے بارے میں بہت سی مافوق الفطرت ناموافق باتیں مشہور ہیں۔ البتہ بعض مشرقی ممالک میں انہیں خوش قسمتی، طویل العمری اور خوشی کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا کے بعض علاقوں اور بحرالکاہل کے چند جزائر میں فلائنگ فاکس” کا گوشت کھانے کے لئے اس کا شکار ہوتا ہے۔
چھوٹی چمگادڑوں کو بہت سے علاقوں میں کھایا جاتا ہے لیکن یہ غذا کا باقاعدہ حصہ نہیں۔ بعض لوگ نام نہاد حکیمانہ مشوروں پر انہیں کھاتے ہیں۔ یورپی چڑیا گھروں میں انیسویں صدی کے وسط سے چمگادڑوں کو رکھنے کا رواج ہوا۔ انہیں تحقیقی مقاصد کے لیے بھی بڑی تعداد میں رکھا جاتا ہے۔ چمگادڑوں میں وائرس کی کثرت کے باعث ان پر تحقیقات زیادہ ہوتی ہیں اور تحقیقی مقالے بھی کثرت سے لکھے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ چمگادڑوں کا پالتے ہیں لیکن انہیں پالنا ا آسان نہیں،یہ خطرناک اور احتیاط طلب شوق ہے۔ ان سے دور رہنے ہی میں بھلائی ہے۔ اب تو دنیا یہ دل سے تسلیم کررہی ہے کہ دین ِ فطرت اسلام نے حلال اور حرام کا جو تصوردیاہے وہ ایک ایسا فلسفہ ہے جس میں بنی نوع انسانیت کی بھلائی پوشیدہ ہے بہرحال کروناوائرس چمگاڈرسے پھیلا یا کسی اور ذریعے سے پوری دنیا میں پھیل گیا حرام جانور وں کو کھانے یا ان کا سوپ پینے کے سبب یہ وباء پھیلی جس سے لاکھوں افرادمرتے چلے جارہے ہیں اس لئے اجتناب میں ہی عافیت ہے اس کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک تعالیٰ کے حضور توبہ استغفار کریں تاکہ وہ دنیا کو اس وباء سے نجات و امان دے آمین یا رب العالمین۔