ایران (اصل میڈیا ڈیسک) ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کی ایک آڈیو ریکارڈنگ سامنے آئی ہے جس میں انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ وزارت خارجہ میں وہ برائے نام وزیر خارجہ ہیں۔خارجہ پالیسی میں ان کا کردار صفر ہے۔ ان کا یہ انٹرویو موجودہ حکومت کے اختتام کے بعد نشر کیا جائے گا۔
ایرانی حکومت کے حامی اقتصادی تجزیہ نگار سعید لیلاز کو دیے گیے تین گھنٹے کے انٹرویو میں جواد ظریف نے کہا کہ وزارت خارجہ کے زیادہ تر ڈھانچے سیکیورٹی امور سے متعلق ہیں۔
جواد ظریف نے یہ انٹرویو گذشتہ مارچ میں ریکارڈ کرایا تھا۔ انہوں پاسداران انقلاب کے کمانڈر قاسم سلیمانی کے بارے میں اپنے تعلق کے بارے میںکہا کہ میں اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں پوری طرح انجام نہیں دے سکا۔ سلیمانی سفارت کاری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے تھے۔ جواد ظریف کا کہنا ہے کہ میں جب شام یا دوسرے امور پر مذاکرات کےلیے روانہ ہوتا تو سلیمانی مجھ پر شرائط عاید کرتے۔ میں انہیں اپنی ضروریات اور سفارتی تقاضوں کے بارے میں انہیں قائل نہیں کر سکتا تھا۔
ایران انٹرنیشنل کو حاصل ہونے والے اس انٹرویو میں جواد ظریف لیلاز سے کہتے سنے جاسکتے ہیں کہ وہ انٹرویو کا ایک حصہ کسی صورت میں نشر نہ کریں۔
ایرانی فوج اور سفارت کاروں کے درمیان اختلافات کے بارے میں بات کرتے ہوئے جواد ظریف نے کہا کہ سفارتی امور سفارت کاروں کو سونپ دینے چاہئیں مگر ایرانی رجیم کے نزدیک جنگ کا محاذ زیادہ اہم ہے۔
ایرانی پالیسیوں کے حوالے سے فوج اور سفارتی شعبے کے درمیان تعلقات کے بارے میںجواد ظریف نے کہا کہ ہم نے جوہری معاہدے کے بعد کثیر مقدار میں پیسہ خرچ کیا تاکہ ہم اپنی فیلڈ وار کے آپریشیزن کو آگے بڑھا سکیں۔
قاسم سلیمانی کے اثرو نفوذ کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ جون 2016ء کو ایران فضائی کمپنی ‘ہما’ پر فضائی سروس پر عاید کی گئی پابندی کے خاتمے کے بعد اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے خبردار کیا تھا کہ پابندیوں کے بعد شام اور ایران کےدرمیان پروازوں میں چھ گنا اضافہ ہو گیا تھا۔
اس وقت کے ایرانی وزیر ٹرانسپورٹ عباس اخوندی نے کہا تھا کہ ایرانی فضائی کمپنی ‘ھما’ اور ‘ماھان’ کو قاسم سلیمانی کی طرف سے دباو کا سامنا ہے جس کی وجہ سے وہ شام کے لیے زیادہ پروازیں چلا رہے ہیں۔