ورزش کے سات حیرت انگیز فوائد

Exercise

Exercise

لندن: دنیا کی کوئی خوراک اور بہترین ٹانک بھی ورزش کی جگہ نہیں لے سکتا۔ ورزش کے دل و دماغ اور پورے جسم پر حیرت انگیز اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس خبر میں ہم ورزش کے وہ سات حیرت انگیز فوائد بیان کریں گے جن پر جدید سائنس اپنی مہر ثبت کر چکی ہے۔

ورزش اور دماغ کا گہرا تعلق ہے کیونکہ یہ ہمارے سیکھنے کے عمل یعنی اکتساب (لرننگ) کو مضبوط کرتی ہے۔ ایک مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ تھوڑی دیر ورزش کرنے سے وہ جین سرگرم ہوتے ہیں جو دماغی خلیات کے باہمی رابطوں کو بہتر بناتے ہیں۔
2019 میں بھی اوریگون ہیلتھ اینڈ سائنس یونیورسٹی نے ایک تحقیق کے بعد کہا تھا کہ صرف ایک مرتبہ ورزش کے بعد بھی دماغی سرگرمی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کی وجہ خون کی بہتر فراہمی اور نیورونز کے درمیان بہتر روابط ہوتے ہیں۔

ساؤتھ آسٹریلیا یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ایک تحقیق کے بعد بتایا ہے کہ ورزش سے اعصابی لچک (نیوروپلاسٹی سِٹی) میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کیفیت میں دماغی خلیات (نیورون) کی وائرنگ اور ترتیب بدلتی رہتی ہے۔ یہ عمل سیکھنے اور نئے ہنر کو سمجھنے میں بہت مددگار ہوتا ہے۔ دماغی لچک کا عمل پوری زندگی جاری رہتا ہے اور نت نئی باتیں سیکھنے میں مددگار ہوتا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ دماغ لچک بڑھانے کے لیے کونسی ورزش موزوں ترین ہے۔ سائنسداںوں کے مطابق ہائی انٹینسٹی انٹرویل ٹریننگ (ایچ آئی آئی ٹی) ورزش اگر 20 منٹ تک کی جائے تو اس سے دماغی لچک میں اضافہ ہوتا ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ عمرکے ساتھ ساتھ دماغی صلاحیت متاثرہوتی ہے۔ اگر یہ رفتار معمول سے زائد ہوجائے تو ڈیمنشیا، الزائیمر اور دیگر امراض جنم لیتے ہیں۔ باقاعدہ ورزش دماغی انحطاط کو کم کرتی ہے اور کئی امراض سے بچاتی ہے۔

ماہرین یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ ورزش کی عادت یادداشت متاثر ہونے کے عمل کو کم کرسکتی ہے۔ 2019 میں جامعہ ایکسیٹر کے سائنسدانوں نے دو لاکھ بالغ افراد کا جائزہ لیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ورزش سے ڈیمنشیا کا خطرہ 32 فیصد تک کم ہوسکتا ہے خواہ اس کا جینیاتی امکان ہی کیوں نہ موجود ہو۔ لیکن ضروری ہے کہ سگریٹ نوشی کو بالکل ترک کیا جائے اور مناسب غذا کھائی جائے۔

اگرچہ ابتدائی زندگی میں دی جانے والی غذا بچے کی دماغی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتی ہے لیکن یہی کام ورزش بھی کرتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ بچوں کو اوائل عمر سے جسمانی مشقت سے گزارا جائے۔

اگر آپ مستقل ذہنی تناؤ سے گزررہے ہیں تو ایئروبک ورزش اس میں بہت مفید ثابت ہوسکتی ہے۔ لیکن جامعہ کیلیفورنیا، ریورسائیڈ کے سائنسدانوں نے ثابت کیا ہے کہ اگر بچوں اور نوعمروں کو ابتدائی عمر سے ہی کھیل کود اور ورزش کی عادت ڈالی جائے تو آگے چل کر اس کے بہت مفید اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایسے بچے جوان ہوکر ڈپریشن کے شکار کم کم ہوتے ہیں اور ان کا دماغ بھی وسیع ہو جاتا ہے۔

پوری دنیا میں بڑھاپے کے ساتھ ساتھ اے ایم ڈی ( ایج ریلیٹڈ میکیولر ڈی جنریشن) کا مرض عام ہے۔ اس میں بصارت ناقابلِ تلافی رفتار سے کم ہوتی رہتی ہے اور اندھے پن کی وجہ بھی بنتی ہے۔

اس ضمن میں یونیورسٹی آف ورجینیا نے چوہوں کو دو گروہ میں تقسیم کیا۔ ایک کو گھومتے پہیئے پر ورزش کرائی گئی اور دوسرے کو ایسی کوئی ورزش نہیں گرائی گئی۔ چار ہفتے بعد لیزر سے دونوں گروہوں کی آنکھیں ٹیسٹ کی گئیں۔

معلوم ہوا کہ باقاعدہ ورزش بصارت میں خرابی کو 32 سے 45 فیصد تک کم کرسکتی ہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ورزش آنکھوں کی بصارت کی بہت بڑی محافظ بھی ہے۔

ورزش جسم کے قدرتی دفاعی(امنیاتی) نظام کو طاقتور بناکر جسم کو کئی بیماریوں سے لڑنے کے قابل بناتی ہے جن میں کینسر بھی شامل ہے۔

یہ طے ہوچکا ہے کہ ورزش کے دوران ہمارے پٹھے کئی طرح کے میٹابولائٹس خون میں خارج کرتے ہیں جو دفاعی نظام کو کینسر سے لڑنے کے قابل بناتے ہیں۔ سویڈن کے مشہور کیرولنسکا انسٹی ٹیوٹ نے جانوروں پر تجربات کئے اور بتایا کہ ورزش ٹی سیلز کو قوت دے کر کینسر سے لڑنے کے قابل بناتی ہے۔

ہمارے معدے اور پیٹ میں مفید بیکٹیریا پورے جسم کو تندرست رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس پورے نظام کو طبی اصطلاح میں’ مائیکروبائم‘ کہتے ہیں۔ ورزش کی عادت جسم میں مائیکروبائم کی مقدار برقرار رکھتی ہے اور ہمارے جسم بیکٹیریا کی تندرست مقدار برقرار رہتی ہے۔

2017 میں جامعہ الینوائے کے ماہرین نے دریافت کیا تھا کہ ورزش سے پیٹ میں تندرست بیکٹیریا کا اضافہ ہوتا ہے۔ اس میں انہوں نے چوہوں اور انسانوں پرتجربات کئے ۔ ورزش سے پہلے اور بعد میں چوہوں کے فضلوں کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ ورزش بیکٹیریا کے تناسب کو درست رکھتی ہے۔